ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کا’’فلسفہ خودی‘‘

0

دیکھتی آنکھوں پڑھتی زبانوں کو سدرہ بھٹی کا سلام عرض ہے،امید کرتی ہوں کہ آپ سب ٹھیک ہوں گے،رب کائنات سے دعا ہے کہ آپ سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے،خوش و خرم آباد رکھے،آمین،ثم آمین۔
الحمداللہ پوری دنیا میں’’اقبال ڈے‘‘ نہایت عقیدت اور تعظیم کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔آج کے اس آرٹیکل میں بات کرنے کی کوشش کروں گی ڈاکٹر علامہ اقبال کے ’’فلسفہ خودی پر‘‘۔

کیونکہ یہ بہت اہم ٹاپک ہے اور ہمیں فلسفہ خودی سمجھنے کی اور اپنے بچوں کو سمجھانے کی بہت ضرورت ہے۔یہاں پر یہ بات بھی بتاتی چلوں اس ٹاپک پر2019میں میں نے پاکستان برٹش فورم کے ذریعے اہتمام لندن میں تقریری مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی جو میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے،تب ہی سے میرے اندر فلسفہ خودی کو مزید جاننے کا شوق پیدا ہوا،آرٹیکل پسند آئے تو شیئر کرنا مت بھولئے گا تاکہ ہم ڈاکٹر علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو زندہ رکھ سکیں،مزید اس آرٹیکل میں اشعار کی مدد سے میں نے فلسفہ خودی پیش کرنے کی کوشش کی ہے،امید کرتی ہوں کہ آپ سب کو میری کوشش پسند آئے گی۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

جیسے کے سب جانتے ہیں ڈاکٹر علامہ اقبال صرف شاعر ہی نہیں تھے ایک فلسفی بھی تھے،قوم کے ہمدرد رہنما بھی تھے،وہ قوم کی اصلاح کر کے اسے عظیم قوم بنانا چاہتے تھے،اسی مقصد کیلئے انہوں نے اپنی شاعری کو ذریعے کے طور پر استعمال کیا،چنانچہ ان کی شاعری محض شاعری ہی نہیں بلکہ اس میں قوم کیلئے پیغام ہے،ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے پیغام میں خودی پر زور دیا ہے ،اگر ہم نے نظریہ اقبال سمجھنا ہے تو سورۃ حشر کی آیت نمبر19پڑھ لیں جس کا ترجمہ یہ ہے۔

اور ان جیسے نہ ہو جو اللہ کو بھول بیٹھے تو اللہ نے اُنھیں بلا میں ڈالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں۔

خدا پر بھروسہ رکھو،اپنے عقیدے و نظریے پر مضبوطی سے کاربند رہو،عمالِ پیہم کو اپنا شعار بنائو۔

بے ہمتی اور محض تقدیر پر تکیہ کرنے کے بجائے حالات کا ہمت سے مقابلہ کرو اور کوشش کرو حالات کے ساتھ ساتھ خود ڈھل جانے کی بجائے حالات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جائے اور اس کیلئے مشکل کو سہنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے،یہ ہے فلسفہ خودی۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی،جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

جب میںفلسفہ خودی سمجھنے بیٹھی تو میرے ذہن میں یہ انگلش کا جملہ آیا۔
Nothing is impossible in the world
Impossible itself says I am possible(yes)
"I am Possible”

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

علامہ اقبال فرماتے ہیں جس قدر مشکل درپیش ہو انسان کو اس قدر با ہمت ہونا چاہئے کیونکہ مشکلات ہی انسان میں مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کرتی ہیں۔شاعرِ مشرق خودی کو سب کچھ سمجھتے ہیں،علامہ اقبال کے نزدیک خودی کا مطلب ہے،اپنے آپ کو پہنچاننا،علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے خودی کے جذبے کو بیدار کیا اور مسلمانوں کو حالات زر سے آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ کیا تھے اور اب کیا ہیں۔

علامہ اقبال کے نزدیک خودی یہ نہیں کہ ایک انسان خدا کی ذات میں اپنے آپ کو فنا کر دے بلکہ خودی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں خدا کو جذب کرے۔بعض لوگ دنیا سے لا تعلقی کر کے انسانوں سے دور ہو کر یہ سوچتے ہیں کہ وہ خدا کو تلاش کر رہے ہیں اور اس میں اپنے آپ کو فنا کر دیتے ہیں حالانکہ’’اللہ تعالیٰ تو انسانوں میں ہے‘‘۔

اگر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو پانا چاہتا ہے تو اسے انسانوں کے کام آنا چاہئے کیونکہ اسی کے ذریعے وہ خدا تک پہنچ سکے گا۔اللہ تعالیٰ کو وہ انسان پسند ہیں جو کہ انسان کے کام آتے ہیں نہ کہ وہ جو اس کے بندوں سے دور بھاگتے ہیں۔

خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں تو اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

انسان جس قدر خدا کے نزدیک ہوتا جائے گا اتنا ہی وہ مکمل ہوتا جائے گا اور جس قدر دور ہو گا اتنا ہی وہ نا مکمل ہو گا۔مزید یہ کہ خودی نام ہے زندگی اور موت کا،خودی نام ہے خود اعتمادی کا اور خودی نام ہے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے کا۔

آج انسان جو اتنی ترقی کر رہا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ یقیناً یہی ہے کہ انسان کو اپنی ذات کا ادراق ہو گیا ہے،انسان نے بہت سے مسائل پر قابو پا لیا ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

جس انسان کی خودی جتنی بلند ہو گی وہ انسان اتنا ہی طاقتور ہو گا،خودی ایک ایسا نسخہ ہے جس سے انسان کے تمام امراض جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں اور خودی جس قوم میں پیدا ہو جائے اس قوم کو پھر کوئی غلام نہیں بنا سکتا کیونکہ جس میں خودی ہو اس کو موت کا ڈر نہیں رہتا۔

اسرار خودی میں ڈاکٹر علامہ اقبال نے خودی کی اہمیت اور اس کے ارتقا کی تشریح کی ہے،اقبال کے نزدیک خودی ایک حقیقت ہے نہ کہ وہم،اگر کوئی شخص اپنی انفرادیت کھو دے تو مٹ جاتا ہے اور اگر کوئی قوم اپنی پہنچان بھول جائے تو وہ پوری قوم مٹ جاتی ہے۔

مانگے کی روشنی سے نہ پائو گے رستہ
اس تیرگی میں لے کر خود اپنے کنول چلو

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ڈاکٹر علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

اپنا اور دوسروں کا خیال رکھنا مت بھولئے گا،ایک نیا ٹاپک نئے آرٹیکل کے ساتھ پھر حاضر خدمت ہوں گی،اجازت دیجئے،اللہ حافظ۔

دعائوں کی طلبگار
سدرہ بھٹی
لندن

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!