وہ پہلی بار مدینہ جا رہا تھا۔رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کی حاضری کا سوچ کر اس کی آنکھیں اشکبار تھیں۔بابا کے گزر جانے کے بعد اس کے بڑے بھائیوں نے گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن اسے ابھی مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔یونیورسٹی کے دوسرے سمیسٹر کے بعد وہ ڈیڑھ ماہ کے لئے یونیورسٹی کی طرف سے فارغ تھا جب ہی اس نے اپنی ماں کی خواہش پہ ان کے ساتھ عمرہ پہ جانے کے لئے خامی بھر لی۔وہ اس وقت اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر بیٹھا تھا اور اس کی ماں کا ہاتھ اس کے سر پر تھا۔
"اماں۔۔دعا کرنا،مجھے میرے شیخ بھی وہاں پہ ہی مل جائیں”اس نے ماں کی گود میں سر رکھ کر انہیں مخاطب کیا
"کون سے شیخ شاہ زین بیٹا”ماں متجسس سی ہو گئیں
"بس ماں،میں ان کا نام نہیں بتا سکتا،مگر وہ میرے شیخ ہیں ان کی وجہ سے ہی میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں اپنی ماں کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے جائوں اور پھر مدینہ میں میری حاضری ہو،میں تم دونوں کے درمیان کھڑا ہو کر نماز ادا کروں”اس کی آنکھیں نم تھیں
"میں دعا کروں گی بیٹا،تمہیں وہ شیخ مل جائیں اور تمہاری ان سے ملاقات بھی ہو جائے جن کی نسبت سے تمہیں فیض ملا ہے”اس کی ماں نے اسے دعا دی
"اماں،لوگوں کی زبانیں بہت لمبی ہیں لیکن میں نے انہیں کبھی بھی جواب نہیں دیا”اس کی زبان پہ جیسے شکوہ تھا
"لوگوں کی باتوں کا کبھی نہیں سوچتے بیٹا،لوگوں نے تو اپنے سامنے آئینہ رکھا ہوتا ہے اور وہ وہی بولتے ہیں جو وہ آئینے میں دیکھتے ہیں”ماں نے اسے نصیحت کی تو اس نے فقط اثبات میں سر ہلایا لیکن زبان سے کچھ بھی نہ بولا۔کچھ دیر کے لئے دونوں کے درمیان ایک خاموشی سی چھائی رہی تو اس کی ماں نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر سوال کیا
"تم درِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ جا کر کیا مانگو گے”اس کی ماں کا لہجہ محبت بھرا تھا
"میں نہیں بتا سکتا ماں،میری خواہش وہاں جا کر پوری ہو گی”اس نے ماں کی گود سے سر اٹھا کر انہیں دیکھا
"تم اپنی ماں سے اپنی خواہش چھپائو گے”ماں نے منہ بنایا
"نہیں ماں،مگر میری اس خواہش پہ آپ بھی رشک کریں گی”وہ آبدیدہ ہو گیا
"ارے تم یہ رونا کیوں شروع ہو گئے”اس کی ماں نے اس کے آنسو پونچھے
"ماں،بس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ جا رہا ہوں نا اس لئے”اس نے کانپتی ہوئی آواز میں بتایا تو اس کی ماں نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا
"وہ عاشق ہی ہوتے ہیں جو محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ حاضری کا سعادت کا سنتے ہی آبدیدہ ہو جاتے ہیں مگر بیٹا،حاضری کے لئے کچھ لمحے اور انتظار کرنا ہو گا ان شاءاللہ پھر یہ بے تابی ختم ہو جائے گی”اس کی ماں نے اس کا کندھا تھپتھپایا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں چلتا ہوں ماں،صبح ہمیں روانہ ہونا ہے”وہ ماں سے اجازت لے کر کمرے سے نکل گیا جب کہ اس کی ماں نم آنکھوں سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئی۔وہ اپنے کمرے میں آ کر بستر پہ لیٹ گیا لیکن نیند آج اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا جب وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
اگلے دن صبح فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت مئوذن فجر کی اذان دے چکا تھا۔اس نے جلدی سے اٹھ کر نماز فجر ادا کی اور پھر اپنی ماں کے ساتھ روانگی کے لئے تیار ہونے لگا۔وقت اپنی رفتار سے گزرتا گیا اور وہ گھر سے ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہو گئے۔ائیرپورٹ پہ جہاز میں بیٹھنے کے بعد وہ چند گھنٹوں کی مساطت طے کرنے کے بعد مکہ شہر میں پہنچ چکے تھے۔
وہ اپنی ماں کا ہاتھ تھامے مسجد الحرام میں داخل ہوا لیکن جیسے ہی اس کی نظر خانہ کعبہ پہ پڑی تو وہ وہیں پہ ساکت و جامد کھڑا رہ گیا۔اس کی ماں چلتے چلتے اس کے رک جانے پہ اچانک رک گئی۔
"کیا بات۔۔۔۔”اس کی ماں کی زبان اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہیں پہ رک گئی۔اسے روتا ہوا دیکھ کر وہ بھی رونے لگ گئیں اور پھر باقی کا کچھ وقت انہوں نے وہیں پہ بیتا دیا۔وہ یونہی ہر روز آتا اور اپنی ماں کے ساتھ گھنٹوں حرم کعبہ کو دیکھ کر آنسو بہاتا رہتا۔اس دوران اس نے عمرہ کے ارکان بھی ادا کئے۔پانچ روز گزر گئے اور آج چھٹا روز حرم کعبہ میں ان کا آخری روز تھا جب اس نے حرم کعبہ میں کھڑے ہو کر اس نے اپنی ماں سے پوچھا
"ماں،کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ میں عمر بھر ایک دن مکہ میں گزاروں اور ایک دن مدینہ میں گزاروں۔اسی طرح میری زندگی کے دن رات گزرتے رہیں اور پھر مجھے آخری آرام گاہ کے لئے مدینہ میں جگہ مل جائے”وہ حرم کعبہ کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا جب ماں نے تعجب سے اسے دیکھا
"بیٹا،یہ نصیب کی بات ہے،تم شکر کرو کہ اس بڑے مہربان اللہ نے ہمیں چند دن گزارنے کے لئے اپنے گھر میں جگہ دی ہے ورنہ نہ جانے کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جو حاضری کو ترستے ہوئے اس دنیا سے گزر جاتے ہیں”اس کی ماں خاموش ہوئی تو اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پہ رکھے”ممکن ہے ماں کہ اس بار میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جائوں”وہ کھوئے کھوئے انداز میں کہہ گیا۔اس کی یہ بات اس کی ماں کے دل پہ تیر کی طرح چبھی لیکن وہ زبان سے کچھ بھی نہ بولیں اور صرف آنسو بہاتے ہوئے حرم کعبہ کی طرف دیکھنے لگیں۔
اگلے روز وہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کی حاضری نے اسے ایک بار پھر سے آبدیدہ کر دیا تھا۔
چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد شہر مدینہ پہنچ چکے تھے۔شہر مدینہ پہنچ کر اس پہ رقت طاری ہو چکا تھا جب اس کی ماں نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا
"شاہ زین،سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در آ گیا ہے۔ہم آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ پہنچ چکے ہیں اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے در پہ آنے والے کسی سوالی کو خالی نہیں جانے دیتے”اس کی ماں اسے بتاتی چلی گئیں جب کہ وہ نہ جانے کن سوچوں میں گم ٹیکسی سے باہر نکل آیا۔ٹیکسی والے کو کرایہ ادا کرنے کے بعد وہ لوگ پھر مسجد نبوی کی جانب چل پڑے۔جیسے جیسے وہ مسجد نبوی کے قریب پہنچ رہے تھے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔چند لمحوں کی مسافت کے بعد اس کے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در تھا۔
"میرے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلام کی حاضری قبول فرمائیں،مجھے اپنے در پہ جگہ نصیب کریں”وہ رو رہا تھا۔آنسو بہا رہا تھا۔ماں کا ہاتھ تھامے ہوئے وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدود میں داخل ہو چکا تھا پھر مزید مسافت کے بعد وہ گنبد حضرا کے عین سامنے کھڑا ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی اس کی زبان پہ درود و سلام بھی جاری ہو چکا تھا۔وہ اشک بہا رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کی ماں بھی کھڑی تھی۔صبح سے شام ہو گئی اور شام سے اب رات کا سماں چھا چکا تھا جب اس کی ماں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
"بیٹا شاہ زین،تم نے ساری نمازیں یہاں پہ کھڑے ہی پڑھ دیں،تم ایک لمحے کے لئے بھی اس جگہ سے نہیں ہلے اور درود و سلام پڑھتے رہے ہو،چلو کچھ کھانا کھا لو”
"ماں،میری بھوک مٹ چکی ہے۔میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ کھڑا ہوں بھلا یہاں کوئی بھوکا رہ سکتا ہے”اس نے ماں کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا۔اس کی ماں کچھ دیر کے لئے اس کے ساتھ کھڑی رہی اور پھر وہ جانے لگی تو وہ بھی ماں کے پیچھے چل پڑا۔مسجد نبوی میں آج پہلا روز اسے کبھی بھولنے والا نہیں تھا۔اس کے لئے وہ لمحہ درد سے کم نہ تھا لیکن ماں کے سنگ چلتے ہوئے اسے کیمپ پہنچنا تھا۔
اگلے روز وہ پھر سے مسجد نبوی کے صحن میں اسی جگہ پہ کھڑا تھا جہاں ایک دن قبل ہی کھڑے ہو کر اس نے درود و سلام پڑھا تھا۔آج کے دن اس کے احساسات مزید بڑھ گئے تھے۔تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ وہیں پہ کھڑا تھا۔اس نے فجر کی نماز بھی وہیں پہ ادا کی اور ظہر کے وقت بھی اس نے نماز اسی جگہ پڑھی۔وقت لمحوں میں گزرتا گیا اور وہ وہیں پہ کھڑا درود و سلام پڑھتا رہا۔عصر کا وقت ہونے میں ابھی کچھ دیر ہی باقی تھی جب کسی نے اس کے کندھے پہ دھیرے سے ہاتھ رکھا۔اس پل اسے کسی ان دیکھے احساس نے گھیر لیا کیونکہ وہ ہاتھ اس کی ماں کا نہیں تھا۔وہ پلٹا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ اس کے شیخ کے تھے جن سے وہ روحانی نسبت رکھتا تھا لیکن وہ زندگی میں کبھی ان سے نہیں ملا تھا اور آج مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ اسے اس کے شیخ سے بھی ملوا دیا گیا۔
"شیخ۔۔۔۔۔میرے۔۔۔شیخ”وہ برملا کہتا گیا اور ان کے ہاتھ چومنے کے لئے جھکا تو ان کے چہرے پہ ایک مہربان مسکراہٹ تھی
"بیٹا،میں اس ماں کو سلام کہتا ہوں بیٹا،جس نے تمہارے جیسے بیٹے کو جنم دیا ہے”وہ اس کے معترف ہوئے
"میں بہت گنہگار ہوں میرے شیخ”اس نے اپنا سر جھکایا
"یہاں اکثر گنہگار بھی تشریف لاتے ہیں بیٹا،اس بار میں اور تم ہی سہی”ان کی آنکھیں بھی بہنے لگیں
"میرے شیخ،کیا آپ بھی گنہگار ہیں”اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا
"ہاں،میں بہت گنہگار ہوں بیٹا،لیکن تم مجھے بتائو تم مجھے کیسے جانتے ہو اور مجھے شیخ کیوں کہہ رہے ہو”انہوں نے سوالیہ انداز میں اس دیکھا
"اگر آپ کے درس میں شریک نہ ہوا ہوتا تو شاید میں کبھی بھی آپ کو نہ پہچانتا،میرے قلب میں جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع روشن ہوئی ہے اس سب کا وسیلہ آپ ہی بنے ہیں،مجھ جیسا کھوٹا انسان تو جانتا بھی نہیں تھا کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے نسبت کا مطلب کیا ہے”دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے گال بھگو گئے تو انہوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا وہ زبان سے بولے کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے اور درود و سلام پڑھنے لگے۔وہ اپنے شیخ کے سنگ کھڑا درود و سلام پڑھتا رہا اور اس دوران ہی انہوں نے عصر ادا کی اور مزید وقت گزرنے کے بعد نماز مغرب پڑھ کر اس کے شیخ نے اسے اپنے پاس ہی بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا تو وہ ان کی بات سننے کے لئے مسجد نبوی کے فرش پہ ہی بیٹھ گیا۔
"تم جانتے ہو میں نے تمہیں مسجد نبوی کے دروازے سے داخل ہوتے ہی دیکھا تھا۔مجھے تمہاری آنکھوں میں آنسو نظر آئے اور تم اپنی ماں کا ہاتھ تھام کر چل رہے تھے۔تم نے جس انداز میں گنبد حضرا کو دیکھا تو مجھے تم پہ بے پناہ رشک آیا۔تمہارے قلب میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں کس حد تک عقیدت مند اور ادب والا بنایا ہے کہ تمہیں قدم قدم پر معرفت مل رہی ہے۔میں نے تمہیں نماز ادا کرنے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی لڑکھڑاتے نہیں دیکھا اور تم مسلسل ادب سے کھڑے حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ درود و سلام بھیج رہے ہو۔میں اسی لئے تمہارے پاس آیا ہوں کہ تمہارے دل کی کیفیت جان سکوں مگر تمہارے قریب کھڑے ہو کر مجھے لگا کہ تمہارے دل میں جو عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہے وہ ہر اس شخص کو سیراب کرے گا جو تمہاری قربت میں ہو گا”وہ اپنی رو میں اسے بتاتے چلے گئے جب کہ وہ مسلسل آنسو بہاتا ان کی بات سنتا رہا۔
"میرے لئے یہ بہت بڑی سعادت ہے میرے شیخ کہ میں اپنی ماں اور اپنے شیخ کے سنگ رحمت اللعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ بیٹھا ہوں اور مجھے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کرم نصیب ہوئی ہے کہ میں نے اپنے شیخ سے بھی مل لیا ہے جن سے ملنے کی حسرت کئی سالوں سے میرے دل میں تھی۔میں وہ خوش قسمت ہوں جسے اپنے شیخ سے ملوانے کے لئے مسجد نبوی جیسی مقدس جگہ کا انتخاب کیا گیا۔مجھے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ حاضری کی سعادت حاصل کرتے وقت اپنے شیخ کی بھی قربت نصیب ہوئی۔حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی نظر کرم سے ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھے ہیں”وہ انہیں اپنے دل کے حال سے آگاہ کر رہا تھا جب کہ اس کے شیخ بھی سر جھکائے اس کی بات سن رہے تھے۔وہ خاموش ہوا تو انہوں نے بھی کوئی بات نہ کی بلکہ وہ چند لمحے سکتے کی حالت میں بیٹھے رہے اور ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
"میرے شیخ مجھے ایک بار گلے سے لگائیں”وہ اپنی جگہ پہ کھڑا ہوا تو اس کے شیخ نے بھی کھڑے ہو کر اسے گلے سے لگا لیا۔اس کی ماں یہ منظر دیکھ رہی تھی لیکن وہ انتظار میں تھی کہ کب وہ ان کے پاس آئے اور وہ اس سے اس شخصیت کے بارے پوچھیں۔
"میرے شیخ میری ایک خواہش ہے جو میں صرف آپ کو ہی بتا رہا ہوں”شاہ زین نے اپنا سر جھکا کر کہا
"کیا خواہش ہے بیٹے”انہوں نے اس کی ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھ کر اس کا چہرہ اوپر کیا
"اگر مجھے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ موت آ جائے اور کل تک میری سانسوں کی ڈوری ٹوٹ گئی تو میرا جنازہ پڑھا دینا”شاہ زین نے ان کے ہاتھ تھامے تو اس کے شیخ کی زبان سے کوئی لفظ بھی ادا نہ ہو سکا اور وہ ان سے اجازت لے کر ماں کی طرف بڑھ گیا۔اس کی ماں نے پاس آتے ہی اس سے اس شخص کے بارے پوچھا تو اس نے انہیں بتایا کہ یہ وہی شیخ ہیں جن سے وہ ملنے کی خواہش رکھتا تھا اور پھر اسے ایسی مقدس جگہ پہ ملوایا گیا جس کا تصور اسے بھی نہیں تھا۔وہ ماں کے ساتھ کچھ دیر کے لئے کیمپ میں رہا اور رات کا کھانا کھا کر دوبارہ سے نماز عشاء ادا کرنے کے لئے مسجد نبوی پہنچ گیا۔اس بار اس کے شیخ کے ارد گرد بہت سے لوگوں کی بھیڑ تھی اور اس نے اپنی ماں کے ساتھ ہی کھڑے ہو کر نماز عشاء ادا کی۔نماز عشاء ادا کر کے اس نے اسی روٹین کے ساتھ درود و سلام پڑھا اور پھر ماں کے ساتھ کیمپ میں واپس پلٹ آیا۔
مسجد نبوی میں آج اس کا تیسرا روز تھا اور وہ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے نمازیوں کے ساتھ صف آراں تھا۔اس کے دائیں طرف اس کے شیخ کھڑے تھے جب کہ بائیں طرف اس کی ماں نے فجر کی نماز کے لئے نیت باندھ لی تھی۔پہلی رکعت کا لمحہ گزرا اور پھر سب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہو گئے۔اچانک اسے اپنی سانس اکھڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔اسے لگا جیسے اس کا دل دھڑکنا چھوڑ چکا ہے۔اس نے اسی حالت میں رکوع کیا اور پھر سجدے میں چلا گیا۔امام کی اقتداء میں اس نے پہلے سجدے سے سر اٹھایا اور پھر دوسرے سجدے کے لئے اس کی پیشانی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرش پہ ٹک گئی۔پھر امام نے دوسرے سجدے کی تکمیل کے بعد سر اٹھا لیا لیکن اس کا سر اب بھی سجدے میں ہی تھا۔امام تشہد سے درود پاک اور درود پاک پڑھنے کے بعد دعا پڑھ چکا تھا لیکن اس نے سجدے سے سر ابھی تک نہیں اٹھایا تھا۔امام نے دونوں طرف سلام پھیر کر فرض نماز مکمل کر دی لیکن وہ مسلسل سجدے کی حالت میں ہی پڑا رہا۔جیسے ہی امام نے سلام پھیرا تو اس کی ماں نے اس کا نام پکار کر اسے اٹھانا چاہا لیکن وہ سجدے کی حالت میں ماں کی گود میں گر گیا۔اس کی ماں کی ایک چیخ نکلی تو سب نمازی اس کی طرف متوجہ ہو گئے
"میرے شیخ،اگر در محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ کل تک میری روح پرواز کر جائے تو میرا جنازہ پڑھا دینا”اس کے شیخ میں ایک دن پہلے مغرب کے وقت ہونے والی بات ان کے کانوں میں پڑی اور ان کی زبان سے بے اختیار نکلا
"انا للہ وانا الیہ راجعون،میں تمہارا جنازہ پڑھائوں گا”اس کے شیخ اشکبار ہو گئے اور انہوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کے جسم کو چھوا جو بے جان ہو چکا تھا جب کہ اس کی ماں بھی فرط جذبات میں آ کر اس پہ جھک گئیں۔اس کی آخری خواہش پوری ہو گئی تھی اور اسے اپنی ماں اور شیخ کے درمیان نماز ادا کرتے ہوئے موت آ گئی۔اسے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ سجدے کی حالت میں موت نصیب ہوئی۔اس وقت اس کی موت پہ رشک کرنے والا ہر کوئی تھا لیکن اس کے شیخ اور ماں اس پہ رشک کے ساتھ ساتھ آنسو بھی بہا رہے تھے۔اس کی ماں دیر تک اس پہ جھکی روتی رہیں جب کہ شیخ بھی آنسو بہاتے اس کے پاس ہی بیٹھے رہے۔کچھ مزید گزرا تو غسل کے بعد پھر اسے جنت البقیع میں دفنانے کے لئے لے جایا گیا۔جہاں سب نے اس کے شیخ کی اقتداء میں اس کی نماز جنازہ ادا کی اور اسے سپرد خاک کر دیا گیا۔وہ موت قابل رشک تھی جس کی خواہش ہر مومن اپنے دل میں رکھتا ہے۔اس کی ماں اور شیخ اسے منوں مٹی تلے پڑا دیکھ کر ہاتھ اٹھائے اس کے لئے دعا مانگ رہے تھے۔