فضیلت ماہ محرم

0

ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جسکی بنیاد حضوراکرم کے واقعہ ہجرت پر ہے لیکن اس سن کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت سے ہوا حضرت ابو موسی اشعری یمن کے گورنر تھے ان پاس حضرت عمر کے فرمان آتے تھے جس پرتاریخ نہیں ہوتی تھی صحابہ کرام کے سامنے مسعلہ رکھا گیا اور طے پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقع ہجرت کوبنایا جاۂے اور اسکی ابتداء ماہ محرم سے کی جاۂے تیرہ نبوت کے ذوالحجہ کے آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کرلیا گیا تھا اس کے بعد جوچاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا لفظ محرم حرم سے ماخوزہے جس کے معنی عزت و احترام کے ہیں اہل عرب اس مہینے میں قتل و غارت سے رک جاتے تھے کتاب اللہ میں مہینوں کی کل تعداد بارہ ہے جن میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں (التوبہ آیت 36) ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک محرم الحرام ہے۔

چار مہینے خصوصاً حرمت والے ہیں محرم ، رجب ، ذی القعدہ اور ذی الحجہ ان مہینوں کو حرمت والا اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام سے جو فتنہ و فساد اور امن عامہ کی خرابی کا باعث ہو بالخصوص منع فرمادیا ہے مثلا آپس میں لڑائی جھگڑا اور ظلم و زیادتی وغیرہ نافرمانی کے کام کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع کیا گیا ہے ان حرمت والے مہینوں میں قتال کرکے ان کی حرمت پامال کرکے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرو ہاں اگر کفار ان مہینوں میں بھی تمہیں لڑنے پر مجبور کردیں تو لڑائی کرنا درست ہی نہیں بلکہ فرض بھی ہے محرم کے لغوی معنی ہیں ممنوع حرام کیا گیا ۔

عظمت والا اور لائق احترام مسلمان محرم کا چاند دیکھ کر اپنے اسلامی سال کا آغاز کرتے ہیں محرم الحرام کے ایام پوری مسلم امہ کیلئے ظالم کفار کے سامنے جہاد کا درس اور اپنے مذہب آخری نبی ﷺ کی تعلیمات اور قرآن کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے اسلام کو مزید آگے بڑھانے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو اجاگر کرنے کا بھرپور اور واضح پیغام ہے جہاں تک اسلامی دنیا میں محرم کے مہینوں میں اہم دنوں کے واقعات کا تعلق ہے تو یکم محرم کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون پر فتح عطا فرمائی تھی اوربنی اسرائیل کو آزادی ملی تھی یکم محرم کو دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر کی شہادت ہوئی تھی جن کی اسلامی فلاحی حکومت بائیس ہزار مربع میل پر قائم تھی دس محرم کو حضرت حسین کو کربلا کے میدان میں ظلم کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا محرم الحرام کا دسواں روز یوم عاشورہ کہلاتا ہے اس روز کی قرآن و احادیث میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔

اس روز کے متعلق مشہور ہے کہ دس محرم الحرام کو یوم عاشورہ اسلئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن اللہ ربّ العزت نے دس پیغمبروں(علیہ السلام) کو دس اعزازات عطاء فرمائے اسی وجہ سے یہ دن یوم عاشورہ کہلاتا ہے اسی روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی حضرت ادریس علیہ السلام کومقام رفیع پر اٹھایا گیا حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیداہوئے اوراسی روزرب کائنات نے انکو اپنا دوست (خلیل) بنایا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوآگ نمرود سے بچایا گیا حضرت دائودعلیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی واپس ملی حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری ختم ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کودریائے نیل سے راستہ ملا اور فرعون غرق کردیا گیا۔

اسی روز سیدنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پر اٹھا لیا گیا محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تخلیق ہوا اوراسی یوم عاشورہ کے دن امام عالیٰ مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جام شہادت نوش کیا اور اس طرح ظالم و مظلوم حق و باطل کے درمیان اس عظیم معرکہ کو کربلا کے نام سے تاریخ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا محرم نے در حقیقت انسانی جان کی اہمیت کو پہچان دی اور ان کی قربانی کو قیامت تک زندہ و جاوداں کر دیا اور دوسری جانب یزیدیت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہر صورت میں عنوان میں انداز میں زلت و رسوائی دے دی۔

اگر ہم جان لیں کہ انسانی جان (حسینؓ) کی اللہ پاک کے ہاں کیا قیمت ہے تو ہر (یزید) یعنی ظلم کرنے والا ضرور اپنا ہاتھ روکے گا ماہ محرم میں مسنون عمل بالخصوص روزے ہیں نبی کریم ا کا معمول تھا کہ آپ ﷺ ماہ محرم میں بکثرت روزے رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس مہینے میں روزے رکھنے کی ترغیب دلاتے اس مہینہ کے شرف فضیلت عظمت و اہمیت کا تقاضا ہے کہ ہم اس مہینہ میں ذیادہ سے ذیادہ عبادات میں مشغول ہو کر رحمتوں برکتوں کو سمیٹیں اس مہینے میں گانے بجانے رقص و سرور کی محفلوں سے اجتناب کرنا چاہیئے کوئی بھی مسلمان یہ کیسے گوارہ کر سکتا ہے کہ ایک طرف جنت کے سرداران کے پیاسے لاشے جلتی ریت ہر گرائے جا رہے ہوں نیزوں پر ان کے سر اچھالے جا رہے ہوں اور دوسری جانب ہم مسلمان ان کے نانا کی شفاعتِ کی طلبگار اُمَتی گانے بجانے اور ٹھٹھے مخول میں وہ لمحات گزار رہے ہوں جن کے غم پر ان کے نانا ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی زندگی ہی میں آنسو بہایا کرتے تھے۔

حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور عوام پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شرپسند عناصر کے شر سے محفوظ رہتے ہوئے ان کی جانب سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈوں اور افواہوں پر کان نہ دھریں امن وامان کی بحالی اور بھائی چارگی کی فضا قائم کرنے کیلئے بلند کردار ادا کرکے محب وطن ہونے کا ثبوت دیں لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماہ محرم آتے ہی وطن عزیز میں فرقہ پرستی کو ہوا دی جاتی ہے اس لئے حکومت ملک بھر میں قیام امن و ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے دیر پا اقدامات کی طرف توجہ دے دعا ہے کہ ان پر چلنے اور اس دین کو لانے والوں کی سنت نبھانے کی توفیق عطا فرمائےللہ تعالیٰ اس نئے اسلامی سال کو امت مسلمہ کے لئے فلاح و کامیابی راحت اور خوشیوں کا با عث بنائے ہم سب کو مل کر یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اللہ ا ور اسکے رسول تمام صحابہ تمام خلفائے راشدین اور اہل بیت سے سچی محبت ہے اور اللہ پاک ہم سب کو اپنی دی

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!