یوم دفاع ، تجدید عہد وفا

2

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

6 ستمبر کا دن ایک ایسا یاد گار دن تھا جس کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے مزین ہیں۔ جس دن چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب ایک کمانڈ پہ پوری قوم میں قوت ایمانی کا جذبہ جاگا اور اپنی قومیت اپنا تشخص اور اپنا ملک بچانے کے لئے ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے جاگ اٹھا ۔

وطن عزیز کے کمانڈر نے جب لاہور ریڈیو پاکستان سے یہ آواز لگائی کہ پاکستانیو !

جاگو !
لا الہ الا اللہ کے ماننے والو!
وطن عزیز پہ حملہ ہوگیا ہے ۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ وہ ایسے لمحات تھے کہ جن کو فقط الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ہر طرف ایک عجب جذبہ دیکھنے کو ملا ، ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ ہمیں پاک فوج میں شامل کرلیا جائے اور محاذ پہ بھیجا جائے ۔ اک طرف جوانوں کا یہ عالم تھا تو دوسری طرف خواتین اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے صف آرا تھیں۔ اس وقت ہر ذی ہوش یہی چاہتا تھا کہ بس ملک کی بقاء میں اس کا لہو شامل ہو جائے ۔

اس ملک کے بہادر سپوتوں نے اپنی جانوں کے نذرانے اس انداز میں پیش کئے کہ ایک لمحے کو سوچتی ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتی ہوں۔

وہ کون سا جذبہ تھا جس نے اس ملت کے جوان کو اپنے بدن پہ بم باندھ کے ٹینکوں کے آگے لیٹنے پہ ابھارا ۔ وہ کونسی غیرت تھی کہ کوئی جوان پیٹھ پہ گولی کھانے کو تیار نہیں تھا کہ پیچھے زخمیوں کو مرہم پٹی کرنے والی اس قوم کی بہنیں ، بیٹیاں تھیں۔ وہ کیا سوچیں گی کہ گولی سینے پہ کھانے کی بجائے میدان جنگ سے پیٹھ پہ گولی کھا کے آیا ہے ۔

میجر راجہ عزیز بھٹی جیسے عظیم بیٹے نے اپنی جان اس ملک کی بقاء کے لئے اس کی زمین کو پیش کر دی ۔

اے وطن تُو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا،
تیرے بیٹے، تیرے جاں باز چلے آئے ہیں

اک طرف پیادہ فوج تو دوسری طرف آسماں کو اپنا میدان ماننے والے ہمارے پاک فضائیہ کے ہوا باز بھی اس ملک کی سالمیت کے لئے "شاہین شہہ لولاک” کا پیرہن اڑے آسماں کی وسعتوں میں دشمن پہ جھپٹ پڑے ۔

ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کو مار گرایا۔ تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاؤالدین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

دشمن نے ہمیشہ ہم پہ رات کے اندھیرے میں وار کیا اور یہ سمجھا کہ پاک فوج اور پاک قوم کم تعداد ، کم ذرائع کے باعث خواب غفلت میں سو رہی ہے۔

مگر وہ شاید مسلمانوں کی تاریخ بھول گئے تھے کہ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہیں ہمیشہ قلیل سامان اور قلیل فوج کے ساتھ بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کی عادت ہے۔ دشمن شاید جانتا نہیں تھا کہ جنہیں ماؤں کی گود سے ہی شہادت کا سبق گھٹی میں پلایا جاتا ہے ان سے دنیا کی کوئی قوت نہیں ٹکرا سکتی۔

دشمن کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ اس ملک کی قسمت لکھنے والے اس عظیم لیڈر نے اس قوم کے اندر وہ تمام اسباق انڈیل دئیے تھے جن کی وجہ سے ایک الگ ریاست کو وجود میں لایا گیا تھا ۔

” قائداعظم نے بذات خود پاکستان کو اسلام کا قلعہ فرمایا تھا۔ چنانچہ 22 جنوری 1948ءکو قائداعظم نے جہاز ”دلاور“ کے افتتاح کے موقع پر اسی حوالے سے فرمایا کہ

”پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی الگ الگ جگہ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے، اس کے لئے آپ کا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ایمان، تنظیم اور ایثار۔ آپ اپنی تعداد کے کم ہونے پر نہ جائیے، اس کمی کو آپ کی ہمت و استقلال اور بے لوث فرض شناسی سے پورا کرنا ہوگا ، کیونکہ اصل چیز زندگی نہیں ہے بلکہ ہمت، صبر و تحمل اور عزم مصمم ہیں جو زندگی کو زندگی بنا دیتے ہیں۔ “

اس عظیم لیڈر کے قول اور اس کی قربانی کو اس قوم نے پس پشت نہیں ڈالا تھا بلکہ اس کی سالمیت کے لئے ہمیشہ تندہی سے کام کرتے رہے اور لڑتے رہے ۔

وطن کی پاسبانی جان و ایماں سے بھی افضل ہے
میں اپنے ملک کی خاطر کفن بھی ساتھ رکھتا ہوں

6 ستمبر 1965ء کے دن میرے ملک کی سلامتی کے لئے پاک افواج کے بہادروں نے اپنی جانیں اس وطن عزیز کے لئے پیش کیں وہ قابل رشک ہیں۔

اس ملک کی خاطر پاک فضائیہ کے شاہینوں نے جو کارنامے انجام دیئے وہ قابل تحسین ہیں۔

پاک نیوی کے جوانوں نے جو خدمات انجام دیں وہ سنہری حروف میں لکھی گئی ایک الگ داستان ہے ۔

یہ وہ لوگ تھے جو روز روز یہ مٹی پیدا نہیں کرتی۔

الغرض ہر ادارہ ، ہر شخص ، ہر پاکستانی اس ملک کی سالمیت و بقاء کے لئے میدان عمل میں آیا اور اپنی اپنی محبت اور خلوص اپنے انداز میں پیش کر گیا۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں ان کا مقام اور ان کے درجات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔

یاد رہے یہ لوگ آج بھی اپنے آرام و سکوں کو پس پشت ڈالے پاک سرحدوں پہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ وہ سرحدیں بلند و بالا نوکیلے، برفانی ، پہاڑوں کی صورت ہوں یا گہرے سمندروں کی تہہ میں ، خواہ وہ سرحدیں آسماں کی وسعتوں میں ہوں ۔ ان کے حوصلوں اور جرآتوں پہ فلک بھی محو رشک ہوگا کہ خفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے پیاروں کی زبان کے نشتر بھی سینے پہ برداشت کرتے ہیں۔

مالک ارض و سماں ان جوانوں پہ حیدری جرات کا سایہ قائم رکھے جو اندرونی اور بیرونی ، ناپاک طاقتوں کی زد میں ہیں ۔ میرے وطن عزیز کو طاغوتی طاقتوں سے محفوظ فرما لے اور اس قوم کو فاروق جیسے عادل ، حیدر جیسے غیور حکمران عطا فرما جو پاک قوم کی ذہنی آبیاری اسلامی قوانین کے مطابق کریں۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

2 Comments
  1. Ali says

    Mashallah.. Great.. Keep going

  2. زاہدی says

    ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت انداز میں ہر ہر لفظ کو قرطاس کے سپرد کیا، اللہ کریم علم میں وسعت پیدا فرمائے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!