بیجنگ (ویب ڈیسک)رواں سال مئی میں امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ چین پر عائد موجودہ دفعہ 301 ٹیرف کی بنیاد پر چینی الیکٹرک گاڑیوں سمیت دیگر مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کرے گی۔ اس اقدام پر نفاذ یکم اگست سے شروع ہونا تھا لیکن رائے عامہ کا جائزہ لینے کے دعوے کے باعث اسے 30 جولائی اور 30 اگست کو دونوں دفعہ ملتوی کر دیا گیا۔ امریکہ کے اندر مخالفت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود امریکی حکومت نے آخر کار اپنے فیصلے پر اصرار کیا۔
اس طرح کی یکطرفہ اور تحفظ پسندی نہ صرف امریکہ کے” چین کی ترقی کو نہ روکنے اور چین سے ڈی کپلنگ نہ کرنے” کے حوالے سے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی ہے، بلکہ دونوں سربراہان مملکت کے درمیان اتفاق رائے کی بھی خلاف ورزی ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی انڈسٹری کمیٹی کے چیئرمین جیسن آکسمین کے حوالے سے 14 ستمبر کو کہا کہ چین پر امریکی محصولات کے نفاذ کے بعد سے امریکی کمپنیوں اور صارفین کو مجموعی طور پر 221 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
امریکہ کے محصولات کے اقدامات سے پیدا ہونے والے تجارت کی منتقلی کے اثرات محدود ہیں بلکہ ان سےامریکا کی اپنی درآمدی لاگت میں اضافہ ہونے کے علاوہ ،امریکہ کی چین پر انحصار کم کرنے کی اپنی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکی ، اور امریکی عوام کے مفادات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ موڈیز کا اندازہ ہے کہ امریکی صارفین چین پر عائد محصولات کی لاگت کا 92 فیصد برداشت کرتے ہیں۔ یو ایس ٹیکس فاؤنڈیشن کے مطابق چین پر عائد محصولات نہ صرف امریکہ میں روزگار کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اس کے بجائے امریکہ میں روزگار کے 142,000 مواقع ختم ہو گئے ہیں۔
عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او نے طویل عرصے سے فیصلہ دیا ہے کہ امریکہ کے دفعہ 301 محصولات ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس دفعہ امریکہ چین کی نئی توانائی کی صنعتوں پر اضافی محصولات عائد کرنے کی پالیسی میں کامیابی نہیں ہوگی، اس کے برعکس خود امریکہ کے مفادات اور تشخص دونوں کو مزید نقصان پہنچے گا۔