مسکراہٹوں کی اوٹ سے ایک عہد کا اختتام

0

قدسیہ ندیم لالی کی رحلت نے ادبی دنیا کو سوگوار کر دیا ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے منطقہ شرقیہ سعودی عرب کی ادبی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

انہوں نے الخبر میں ادبی و ثقافتی تنظیم “ہم آواز” کی داغ بیل ڈالی اور اپنے ہم آواز شاعروں اور ادیبوں کے ہمراہ اپنے ادبی فکروفن کا سفر جاری رکھا۔

قدسیہ ندیم لالی ہماری بہترین ادبی دوست اور زندگی سے بھرپور خاتون تھیں، ادبی دوستوں کے درمیان محفل میں قہقہہ زن ہوتیں تو ریکٹر سکیل کو ہلا کر رکھ دیتیں اور کبھی کبھار زندگی کے مسائل سے پریشاں ہوتیں تو بادِ سموم میں ڈھل جاتیں اور جیسے ہی گردابِ غم سے نکلتیں تو بادِ نسیم بن جاتیں، وہ جب تک منطقہ شرقیہ میں رہیں زندہ بھی رہیں اور جاوید بھی رہیں۔

وہ اپنے حسنِ مزاح، مسکراہٹ اور محبت بھرے انداز سے جانی جاتی تھیں، ان کی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو ان کی مسکراہٹ تھی، جو ہر ملنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتی تھی، ان کی مسکراہٹوں کی اوٹ میں چھپی شرارت بھی زندگی سے عبارت ہوتی اور ہمیں بتاتی کہ زندگی کا ہر لمحہ اہم ہے اور ہمیں دوسروں کے لئے محبت اور خوشی کا ذریعہ بننا چاہئے۔

طنز و مزاح پر مشتمل ان کے مضامین کی پہلی کتاب “مسکراہٹوں کی اوٹ سے” شائع ہوئی، شاعری کا مجموعہ کلام “جی اٹھی میں کلام کرتے ہی” شائع ہوا، ادبی رسائل اور اخبارات میں ان کے فکاہیے، افسانے، کالم اور کہانیاں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے۔

ان کی شاعری اور نثر دونوں ہی اپنی مخصوص پہچان رکھتے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا کلام نہ صرف جمالیاتی حُسن کا نمونہ ہے بلکہ انسانی اور خاص طور پر عورت ہونے کے ناطے نسوانی جذبات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

قدسیہ ندیم لالی نے اپنے قلم کے ذریعے جو بھی موضوع چنا، اسے اپنے منفرد انداز میں پیش کیا۔ ان کی شاعری میں محبت، غم، خوشی، اور انسانی جذبوں کا ایک وسیع سمندر ہے جو دلوں کو چھوتا ہے، ان کا کلام ملاحظہ ہو،

فضاء کا رنگ کچھ اتنا سیاہ لگتا ہے
نڈھال قافلہء مہر و ماہ لگتا ہے

ہم لہو اپنا دینے پہ تیار ہیں
ہم کو تزئینِ صحنِ چمن چاہئے

حقیقتوں سے فسانے سبھی جدا کرکے
تماشا دیکھ چکے ہم یہ بارہا کر کے
بڑے خلوص سے کرتی ہوں یاد اسے لالی
اداس رات میں روشن کوئی دِیا کر کے

کچھ یوں ہے اب مرے دلِ ویراں میں تیری یاد
صحراء میں جیسے پھول ہو کوئی کھِلا ہوا

ان کی رحلت ایک بڑا صدمہ ہے۔ بہرحال، ان کی یادیں، ان کی تحریریں اور ان کا ادب ہمیشہ ہمیں ان کی کمی محسوس کرائیں گے۔ ان کی لکھی ہوئی نظموں اور کہانیوں میں جو جذبات اور احساسات پنہاں ہیں، وہ ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔

لالی کا شعر نذرِ قارئین ہے،

میرے خیال کی سرحد سے وہ گیا تو لگا
کہ جیسے چھین لیا جائے کچھ عطاء کرکے

اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے خاندان کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!