ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی غیر یقینی طبیعت اور کاروباری ذہنیت کے حامل ہیں، رپورٹ
بیجنگ (ویب ڈیسک) امریکی صدارتی انتخابات کے "ڈرامہ” کا عروج ختم ہو چکا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ، جو انتہائی غیر یقینی طبیعت اور کاروباری ذہنیت کے حامل ہیں، وائٹ ہاؤس میں واپس آنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لوگ یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کیا چین اور امریکہ کے تعلقات، جو مندی کے بعد بتدریج مستحکم ہو رہے ہیں، ٹرمپ کی واپسی پر اچانک تبدیلیوں کا سامنا کر رہے ہیں؟ چین اور امریکہ کے تعلقات کا رجحان کیا ہے؟ دنیا بہت فکرمند ہے، اور دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین اور بلاگرز بھی اپنی اپنی اسمارٹ منطق یا عجیب و غریب ججمنٹ سے رائے پیش کر رہے ہیں.آئیے ہم ذرا لوگوں کے خیالات کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے دیکھتے ہیں:پہلی ، "مایوسی اور نا امیدی ” کی رائے: چند سال پہلے ، ٹرمپ نے چین امریکہ تعلقات میں "معمول کے مطابق تاش نہیں کھیلا”، تجارتی جنگ کا آغاز کیا ، چینی کاروباری اداروں کو انتہائی حد تک دبایا ، اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات میں چین پر سخت پابندی لگائی ، جس کے نتیجے میں چین نے اپنی سائنسی و تکنیکی جدت طرازی کی صلاحیتوں میں خوب اضافہ کیا ۔ٹرمپ کے غیرمنطقی اقدامات پر ایک جانب چینیوں نے شدید غم و غصہ کیا اور دوسری جانب انہیں یہ انتہائی مضحکہ خیز محسوس ہوا ۔
اس لئے ٹرمپ کو چینی خصوصیات کے حامل "چھوان آئیگو ” کا لقب دیا گیا جس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ چین کا محب وطن ہے۔ اب جبکہ ٹرمپ ، جو "جذباتی عدم استحکام” کے معاملے میں زیادہ "پختہ”ہو رہے ہیں ، وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخل ہوں گے ، تو امکان ہے کہ وہ چین کے خلاف سخت رویہ جاری رکھیں گے ، مزید بے قابو متغیرات لائیں گے اور چین ۔ امریکہ تعلقات کو منفی طور پر متاثر کریں گے۔دوسری رائے، "پرامیدی”: ٹرمپ کے پاس چین کے ساتھ "کھیلنے کے لئے کوئی نیا کارڈ نہیں ہے”، چین ٹرمپ کے مختلف اقدامات سے باآسانی نمٹ سکتا ہے، اور چین امریکہ تعلقات کا بد ترین مرحلہ گزر چکا ہے۔تیسری رائے، "عدم تبدیلی کا نظریہ”: اس کا ماننا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان تضادات ساختی اور ادارہ جاتی ہیں، جو سیاسی نظام، ثقافت، معیشت، فوج اور سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے بہت سے پہلوؤں میں شامل ہیں۔
ان تضادات کو نہ صرف قلیل مدت میں حل کرنا مشکل ہے بلکہ مستقبل میں اس میں مزید شدت آسکتی ہے۔آئیے میں آپ کو اپنی رائے بتاتا ہوں: ایک لفظ میں، چین اور امریکہ کے تعلقات، امریکہ یا یہاں تک کہ انفرادی امریکی سیاست دانوں پر منحصر نہیں ہیں کہ وہ حتمی فیصلہ کریں! امریکہ کے بارے میں چین کی پالیسی و موقف کا طویل مدتی استحکام اور قابل پیش گوئی ہونے کی نوعیت چین اور امریکہ کے تعلقات کے استحکام کے لئے سب سے بڑا "بلٹ اسٹون” ہے۔ کچھ عرصہ قبل چینی صدر شی جن پھنگ نے امریکی صدر جو بائیڈن سے لیما میں ایک سال کے بعد دوسری بار ملاقات کی، گزشتہ چار سالوں کے دوران چین امریکہ تعلقات کا جائزہ لیا، تجربات اور روشن خیالی کا خلاصہ کیا، اور امریکی حکومت کے عبوری دور کے دوران مکالمے اور تعاون کو فروغ دینے، اختلافات کو مناسب طریقے سے سنبھالنے اور مشترکہ تشویش کے بین الاقوامی اور علاقائی امور پر واضح، گہری اور تعمیری بات چیت کی۔
ملاقات کے دوران صدر شی جن پھنگ نے چین امریکہ تعلقات کے حوالےسے سات نکاتی تجربے اور روشن خیالی کا خلاصہ پیش کیا اور نشاندہی کی کہ ایک درست تزویراتی تفہیم پر قائم رہنا چاہیے،قول و فعل میں یکسانیت ہونی چاہیے اور اپنے وعدوں کو مکمل طور پر پورا کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرنا چاہیے، ریڈ لائن اور باٹم لائن کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے، زیادہ مکالمہ اور تعاون کرنا چاہیے ، دونوں ملکوں کے عوام کی توقعات کا سنجیدگی سے جواب دینا چاہیے اور ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری سنبھالنا اشدضروری ہے۔ شی جن پھنگ نے خاص طور پر چین کی "چار عدم تبدیلیوں” پر زور دیا جس سے چین کی امریکہ پالیسی کے تسلسل اور استحکام کی مکمل وضاحت کی گئی۔ چینی رہنما کی طرف سے بیان کردہ یہ نقطہ نظر اور موقف وہ اصول اور شرائط فراہم کرتے ہیں جو صحت مند اور مستحکم چین امریکہ تعلقات کی ترقی کے لئے ٹھوس بنیاد رکھتے ہیں۔
یہ امریکہ اور دنیا کے لئے ، ایک بڑے ملک کے طور پر چین کا سب سے بڑا خلوص اور ذمہ داری کا اظہار بھی ہے،چین امریکہ تعلقات کے سلسلے میں دوسرا عنصر جو تبدیل نہیں ہوگا، امریکہ ہی کا خاصہ ہے جسے چین مکمل طور پر جان سکتا اور اس سے پرسکون طریقے سے نمٹ سکتا ہے ، یعنیٰ امریکہ کی اپنی بالادستی کے لیے شدید لالچ اور جنون: یہ وہ چیز ہے جس کو امریکہ نے اپنا تو لیا لیکن اس سے جان نہیں چھڑا سکتا ہے ۔ امریکہ اور مغرب نے ہمیشہ "قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام” پر زور دیا ہے، اور چین واقعی "بین الاقوامی انضمام” کے لئے کھیل کے ان اصولوں پر عمل درآمد میں بہت جوش و خروش رہا تھا . لیکن آہستہ آہستہ چینی یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اس کھیل کا حتمی قاعدہ یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کے سوا کوئی اور جیت نہیں سکتا، صرف ہار سکتا ہے! جب وہ دیکھتے ہیں کہ آپ جیتنے جا رہے ہیں، تو کھیل کے قوانین اس وقت تک تبدیل ہو چکے ہوں گے جب تک کہ قانون ساز جیت نہیں جاتا! لہٰذا امریکہ سے نمٹنے کے عمل میں چین نے کافی تجربات جمع کئے ہیں، ردعمل کے "ٹول باکس” کو مزید وافر کر دیا ہے، اور ذہنیت اور جوابی اقدامات زیادہ پختہ اور مستحکم ہو گئے ہیں، جو امریکہ میں سیاسی صورتحال کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل نہیں ہوں گے۔”
جب آپ کمزور ہوتے ہیں، تو بدمعاش لوگ حاوی ہو جاتے ہیں ، اور جب آپ مضبوط ہوتے ہیں، تو تمام ڈاکو خوشگوار رقاص اور گلوکار بن جاتے ہیں.” دنیا ایسی ہی ہے، اور چین جو کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اصلاح اور کھلے پن کے اصل ارادے اور سمت پر قائم رہے اور اپنے ملک کی تعمیر کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی پوری کوشش کرے۔ چین امریکہ تعلقات کے حوالے سے ،جو چین کو کرنے کی ضرورت ہے ،بس صرف یہ کہ اچھے نتیجے کے لئے پوری کوشش کرے اور بدترین حالات کے لئے تیار رہے۔ بہرحال بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں چاہے وہ تبادلے اور تعاون ، یا محاذ آرائی اور مسابقت ہو، بات کرنے کا حتمی حق اور اختیار قوت پر منحصر ہوتا ہے۔ چین کی جامع قومی طاقت میں مسلسل بہتری سے چین اور امریکہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے، کوئی کسی کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی کسی کو شکست دے سکتا ہے۔ چین اور امریکہ کی اپنی اپنی کامیابی ایک دوسرے کے لئے موقع ہونا چاہئے، تباہی نہیں۔