سابق صدر آصف علی زرداری پاکستان کی وہ واحد سیاسی شخصیت ہیں جن کو شاید سیاست اور ریاست کی بہت ساری طاقتیں پسند نہ کرتی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بغیر نہ سیاست چلتی ہے نہ ریاست، پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر انھوں نے ریاست کو بچایا اور اپنے سیاسی دائو پیچ کے ذریعے بہت سوں کی سیاست کو بھی بچایا، سندھ میں کچھ یوں سیاست کی کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف بیڈ گورننس اور کرپشن کے سنگین الزامات کے باوجود وہ 2008 سے سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رکھے ہوئے ہیں، 2018 میں تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت کے قیام کے بعد عمران خان نے بھی آصف علی زرداری کو ریاستی طاقت استعمال کرکے سیاست سے بے دخل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس لڑائی میں وہ خود اپنی حکومت گنوا بیٹھے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری ایک دوست نواز شخصیت ہیں دوستوں کو تکلیف میں دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں۔
لہٰذا سابق حکومت نے آصف علی زرداری کے قریبی دوست، صوبائی اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے خلاف قانونی گھیر ا تنگ کرنے کی کوشش کی، ان کے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے گئے، میڈیا میں انہیں آصف علی زرداری کے دستِ راست کے طور پر پیش کیا گیا، پھر انھیں نیب کے ہاتھوں گرفتار کرلیا گیا، گزشتہ دنوں آغا سراج درانی سے ملاقات کا موقع ملا جس میں ان کے خلاف چل رہے کیسز اور ان کی سیاست کے حوالے سے تفصیلی گفتگو بھی ہوئی، آغا سراج درانی نے بتایا کہ وہ آج بھی قید میں ہیں تاہم صوبائی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت یا قائم مقام گورنر کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے وہ اسمبلی یا گورنر ہائوس تشریف لاتے ہیں، اپنی گرفتاری کے حوالے سے آغا سراج درانی نے بتایا کہ ان پر تمام کیسز سیاسی بنیادوں پر بنائے گئےہیں، صرف پارٹی اور صدر زرداری پر دبائو ڈالنے کے لیے ان پر خصوصی کیسز بنائے گئے ہیں پارٹی کے جن رہنمائوں پر نیب کیسز تھے سب کی ضمانت منظور ہوچکی ہے لیکن میری ضمانت میں جان بوجھ کر مسائل پیدا کیے جارہے ہیں، پہلے بھی کیسز کا سامنا کیا آئندہ بھی کریں گے۔
آغا سراج درانی نے بتایا کہ گزشتہ سال جب ان کے گھر پر نیب کی جانب سے چھاپہ مارا گیا تو نیب حکام نے مطالبہ کیا کہ آ پ کے گھر میں آصف علی زرداری کا ساڑھے چار سو کلو سونا اور اٹھارہ بورے ڈالر وں کے موجود ہیں وہ ہمارے حوالے کردیں ورنہ ہم خود نکال لیں گے، اہل خانہ نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کے بعد پورے گھر کو الٹ پلٹ کردیا گیا، فرنیچر، گدے، صوفے، ماربل، دیواریں ہر چیز الٹ پلٹ کردی گئی لیکن کچھ نہ ملا، آغا سراج درانی نے بتایا کہ انہیں کال اپ نوٹس ملا جو 25 تاریخ کا تھا، وہ اسلام آباد سپریم کورٹ سےاپنی ضمانت کے لیے پہنچے تو 19 تاریخ تھی لیکن انہیں وہاں سے گرفتار کرلیا گیا،آغا سراج درانی بتارہے تھے کہ ان کے ساتھ جیو کا مقبول پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ سہیل وڑائچ صاحب کو اپنے آبائی گھر میں موجود تاریخی پستول، گھڑیاں اور انٹیک فرنیچر دکھا رہے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک تاریخی پستول کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے بتائی تھی تو نیب نے مجھ سے پوچھا وہ پستول خریدنے کے پیسے آپ کے پاس کہاں سے آ ئے، حتی کے میرے والد اور دادا جو خود بھی سندھ کے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں، ان کی گھڑی کی خریداری کا سوال بھی مجھ سے کیا گیا تھا، آغا سراج درانی مسکراتے ہوئے بتارہے تھے کہ اس تحقیقات کے دوران میں سہیل وڑائچ کو بھی یاد کرتا رہا، ایک موقع پر آغا سراج درانی افسردہ بھی ہوئے جب انھوں نے بتایاکہ نیب کیسز میں میری اہلیہ اور بیٹیوں کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے، انہیں بھی عدالتوں کے چکر لگوائے جارہے ہیں، میں تمام سیاستدانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ سیاست اور دشمنی میں خواتین کو بیچ میں نہ ڈالیں، خاندانی لوگ یہ کام نہیں کرتے۔
آغاسراج درانی کو سیاست ورثے میں ملی ان کے والد آغا صدرالدین اور چچا آغا بدرالدین بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں، ان کے والد کو قرار داد پاکستان پر اپنے خون سے دستخط کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، آغا سراج کا تعلق گڑھی خدا بخش سے ہے، وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دعوت پر امریکہ سے پاکستان آئے، ماضی میں آصف علی زرداری کی اسیری کے دنوں میں بارہ سال محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک بھائی کی طرح سکیورٹی کے فرائض نبھائے اورآج آصف علی زرداری کے قریب ترین ساتھی سمجھے جاتے ہیں جس پر انہیں فخر ہے۔