برطانیہ: کنزرویٹیو پارٹی کی قیادت، ووٹنگ کا پہلا مرحلہ مکمل، رشی سونک سرفہرست

0

لندن(تارکین وطن نیوز)برطانیہ کے سابق وزیرخزانہ رشی سوناک نے کنزرویٹو پارٹی کے رہ نما اور وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیے ہیں جبکہ بورس جانسن کے جانشین کے انتخاب کی دوڑ سے دو امیدوار باہر ہوگئے ہیں۔

رِشی سوناک گذشتہ ہفتے وزیرخزانہ کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے اور ان کے استعفے سے بورس جانسن کے زوال کی راہ ہموار ہوئی تھی۔رِشی نے کنزرویٹو پارٹی کے دارالعوام کے 358 اراکین میں سے 88 کی حمایت حاصل کی ہے جونیئر وزیرتجارت پینی مورڈانٹ 67 ووٹوں کے ساتھ دوسرے اوروزیرخارجہ لیزٹرس 50 کے ساتھ تیسرے نمبرپرہیں۔

گذشتہ ہفتے سوناک کے مستعفی ہونے کے بعدوزیرخزانہ کا عہدہ سنبھالنے والے ناظم الزہاوی اور سابق وزیرخارجہ جیریمی ہنٹ مطلوبہ کم سے کم 30 ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے مقابلے سے ناک آؤٹ ہوگئے ہیں۔ایک روز پہلے تین اور امیدوار اس دوڑ سے دستبردار ہوگئے تھے۔

اب باقی ماندہ امیدوار سابق وزیر انصاف کیمی بڈینوچ، اٹارنی جنرل سویلا بریورمین، پارلیمنٹ کی خارجہ امورکمیٹی کے چیئرمین ٹام ٹوگندھٹ جمعرات کو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ سے گزریں گے۔

اس کے بعد کنزرویٹو قانون سازحتمی امیدوار کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔اس عمل میں ہر بار سب سے کم ووٹ لینے والے امیدوارکا خاتمہ کیا جائے گااور21 جولائی کو میدان میں رہ جانے والے آخری دوامیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ان میں سے نئے قدامت پسند رہنما کا انتخاب جماعت کے دولاکھ ارکان کریں گے۔ملک میں کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کی بڑی تعداد ہے۔ ان کا اعلان 5 ستمبر کو کیا جائے گا۔

اگرچہ بھارت نژاد رشی سوناک اپنے ساتھی ارکان کے مقابلے میں سب سے زیادہ مقبول دعوے دارہوسکتے ہیں، لیکن پارٹی کے قریباً 900 ارکان نے ایک سروے میں مورڈانٹ کو پسندیدہ کو قراردیا ہےمگران کے مقابلے میں سوناک کو بڑی برتری حاصل ہوئی ہے۔انھوں نے اپنے قریباً تمام حریفوں کے مقابلے میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اب وہ بُکیوں کے پسندیدہ بن چکے ہیں۔

واضح رہے کہ بورس جانسن نے دسمبر 2019 میں بڑی اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔انھوں نے گذشتہ ہفتے بہت سے وزراء اور کنزرویٹو پارٹی کے قانون سازوں کی کھلے عام بغاوت کے بعد عہدہ چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ان پراپنی ہی حکومت کے نافذ کردہ کووِڈقوانین کی خلاف ورزی کا الزام عاید کیا گیا تھا۔

ان کی جگہ اب وزارت عظمیٰ کے امیدواروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے برعکس دیانت داری اور قابل اعتماد قیادت کی پیش کش کیسے کریں گے، لیکن انھیں اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ انھوں نے اتنے عرصے تک جانسن کی حمایت کیوں کی۔وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں اب تک سب سے آگے رشی سوناک پر بورس جانسن کی طرح لاک ڈاؤن قوانین توڑنے پر جرمانہ عاید کیا گیا تھا۔

ان کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ سب امیدواروں کی توجہ صرف ٹیکسوں میں کمی اوراضافی دفاعی اخراجات کی بات کرکے حکمران جماعت کے دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے پرمرکوز رہی ہے جبکہ عوام کو درپیش زندگی کے بحران کی لاگت سے نمٹنے پرتوجہ مرکوز نہیں کی گئی ہے۔تاہم جو بھی امیدوار جیتے گا،اسے ایک مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ جانسن سے متعلق کئی اسکینڈلز سے مجروح عوامی اعتماد کو دوبارہ بحال کرنا پڑے گا۔

اس وقت برطانیہ کی معیشت کو بھی افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح، زیادہ قرضوں اور کم نمو کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لوگ کئی دہائیوں میں اپنے مالی معاملات پرسخت ترین مشکلات سے دوچار ہیں۔ یہ سب مسائل یوکرین میں جنگ کی وجہ سے توانائی کی رسد میں کمی کے پس منظر میں پیداہوئے ہیں۔اس جنگ نے عالمی سطح پرایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!