گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے انکے مقدمات، سیکورٹی فورسز کے حوالے سے اخباری، سوشل میڈیا اور ویڈیو بیانات کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی، جے آئی ٹی میں من و عن سب الزامات کو تسلیم کرلینا یہ کہہ کرمیں نے الزامات لگائے مگر میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا تین طرح سے دیکھا جاسکتا ہے ، ۱) عمران خان کی موجودہ کیفیت ضرور ڈیپریشن کا شکار ہے اور ہر ہ بھرا گھر لٹ جانا انکی جماعت کا شہرت کے حوالے سے مارکیٹ سے غائب ہوجانا ہے ڈیپریشن کا شکارکرسکتی ہے ایسے میں سب الزامات کو تسلیم کرلینا ۲) چار سال تک جھوٹ، بے پرکے الزامات، بیان بازیوں پر کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا ، اتحادی حکومت بھی تمام تر مخالفت کے باوجود بھی عمران خان کا کوئی بال بیکا نہ کرسکی، انکے گھر جاکر انکے عزیز ترین مددگار مراد سعید کو گرفتار نہ کرسکی، ایسی بے ساکھی والی اتحادی حکومت کی کیا طاقت ؟؟ ۳) جو کرنا ہے کرلو، اس خیال کی وجہ پاکستان کی گزشتہ سیاسی طاقت رہی ہوگی جہاں آج تک کسی کو سزا نہ مل سکی، ایک دن دہشت گرد اور دوسرے دن محب وطن بندہ ہوجاتا ہے تو عمران خان نے بھی اس ملکی سابقہ سیاسی تاریخ دیکھتے ہوئے الزامات تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا کہ ”آج تک کیا ہوا ہے جب اب ہوجائے گا “دراصل ہماری سیاسی قیادت کو آج تک اسٹیبلمشنٹ نے ہی جنم دیا ہے اور جب دست شفقت نہ رہے تو پھر انکا مطالبہ ہوجاتا ہے کہ ہمیں یتیم نہ کرو۔
چاہے نواز شریف ہوں، الطاف حسین ہوں، یا عمران خان سب کے ساتھ ایسا ہی ہوا، نواز شریف پنجاب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے زیادہ پریشانی کا شکار نہ ہوئے جسکی وجہ عمران خان کے گندی زبان، غلط بیانیا ں تھیں جس بے باکی اور منتظم طریقے سے ”کرتا دھرتاؤں نے عمران پر دست شفقت رکھا جس میں عدلیہ بھی شامل رہی، مگر اب عسکری قیادت کا صاف اعلان کہ جو ماضی میں ہوا وہ ہوگیا اب ایسا نہ ہوگا۔یہ سپہ سالار کا دو ٹوک اعلان ہے جو عملی طور بھی نظر آرہا ہے، عمران خان سیاست کرنا چاہتے ہیں مگر سیاست کرنے کیلئے وہ بات چیت فوج سے کرنا چاہتے ہیں، ”انوکھا لاڈلہ کھلین کو مانگے چاند “ شائد یہ خواہش کسی اندروں خانہ طریقے سے پوری بھی ہوجاتی، انکی جماعت کے صدر عارف علوی یہ کر بھی چکے ہیں سابقہ سپہ سالار اور عمرانخان کا ملاپ کرانے کیلئے مگر عمران خان کے اندر کی ”میں“نے اونٹ کسی کروٹ نہ بٹھایا۔عسکری قیادت تبدیل ہوگئی اور سیاسی معاملات میں نہ گھسنے کا اعلان ہوا ، ابھی یہ عمل جاری تھا کہ عمران خان کی سالوں پر محیط سول نافرمانی کے بیانات، نوجوانوں کو فوج کے خلاف بھڑکانے کے بیانات رنگ لائے اور ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن 9 مئی آگیا جس نے عمرانخان کی تحریک انصاف کی ہوا نکال دی۔
یہ ایسا بدبودار عمل تھا جو تحریک انصاف کی لیڈر شپ نے کیا،افسوس ہے ان لوگوں پر جو شائد پڑھے لکھے بھی ہیں اور کہتے ہیں جب کورکمانڈر کے گھر حملے کیلئے جارہے تھے قانون نافذ قائم والے کہاں تھے۔ جو ہجوم قائد اعظم اور ، شہداء کی بے حرمتی کررہا تھا اگر قانون نافذ کرنے والے وہاں رکاوٹ بنتے تو پھر لاشیں ہی گرتیں، اور ملک میں ایک نیا واویلا شروع ہوجا تا ہے،ملک کے باہر اور اندر بیٹھی عمران خان کو موڈرن سوشل میڈیا انسانی حقوق کی پامالی کو واویلاکرتی،سو موٹو ایکشن لینے والے اپنے کالے کپڑے دھلواکر تیار ہو جاتے انہیں قائد اعظم، ملک کیلئے جان دینے والے شہداء بھارتی فضائیہ کا بھرکس نکالنے والے ایم ایم عالم نظر نہیں آتے بلکہ ”معصوم“ جان کے ضایع ہونے کا زیادہ خیال آتا ۔مجھے آج یہ بھی خیال آیا کہ ملک میں 9 مئی کے اندوہناک واقع کے بعد کسی عدالت سے نہیں سنا کہ مجرموں کو پیش کیا جائے۔
قانون کے رکھوالوں نے 9 مئی کے واقع کی مذمت ضرور کی وہ تو پریس کلب میں بھی ہر کوئی کررہا تھا عدلیہ سے انہیں ضمانتیں ملیں جنہوں نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے لوگوں کو آگ لگانے، بانی پاکستان اور شہداء کی بے حرمتی کی ترغیب دی ، اور ہنگامہ کرنے پر اکسایا انکی ضمانتیں ہوتی دیکھی ہیں، 9مئی اور عمران خان کا معاملہ اب ایسا نہی رہا کہ تمام تر توجہ اس پر رکھی جائے عسکری قیادت نے کیفر کردار تک پہنچانے کا ذمہ لیا اور وہ شائد ایسا کر بھی دینگے، اسلئے اب مسلم لیگ ن کی صبح شام9مئی کی گردان ختم ہوجانا چاہئے اور مہنگائی، معیشت کی طرف دھیان دینا چاہئے۔ مسلم لیگ ن استحکام پاکستان جماعت کے اعلان کے بعد نہایت مطمئن نظر آرہی چونکہ نمبر ایک مسلم لیگ ن سے اسکی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی توقع ہے، اگر نہ بھی ہوئی تواستحکام پاکستان پارٹی کی ٹوکری میں وہی انڈے ہیں جنہوں نے چار سال سے زائد یا تو اپنی جماعت کے سربراہ کے جھوٹ کی وکالت کرتے رہے ، یا حسب معمول لوٹ مار میں مصروف رہے، جب وہ میدان میں انتخاب لڑنے آئینگے تو بڑے صوبے میں مسلم لیگ ن اسکے باوجود کہ آصف زرداری امید سے ہیں مگر پی پی پی کا سندھ کے علاوہ کہیں مستقبل نہیں نظر نہیں آتا۔
اگر تحریک انصاف پر شاہ محمود قریشی اپنی خواہش کے مطابق قابض ہوجاتے ہیں تو تحریک انصاف بھی الیکشن لڑے گی، ووٹ تقسیم ہونگے اور قرعہ مسلم لیگ ن کے نکلنے کی امید ہے، پنجاب میں چوہدری شجاعت بھی ہیں انکی بھی حمائت تین سیٹو ں کے عوض مسلم لیگ ن کو ہے۔ مگر اسوقت پاکستان کو استحکام کی ضرورت تھی کسی استحکام پاکستا ن نامی جماعت کی نہیں بہر حال وہ پرندے کہاں جاتے جو جہانگر ترین نے عمران خان کو دئے تھے انہوں نے جہانگر ترین کے پاس ہی آنا تھا مگراب نہ جانے عمرانخان ان جانے والوں کو ”لوٹا“کیوں نہیں کہہ رہے؟؟نئی جماعتوں کا قیام ملکی سیاست کو کوئی دوام نہیں بخشے گا ،اس سے لوٹا گیری ہوگی اور کمزور حکومت کا قیام وجود میں آئے گا، مگر سوال یہ کہ کیا الیکشن ہونگے ؟؟؟فی الحال تو کوئی آثا ر نہیں، نگران سیٹ اپ کب تک چلے گا اسکا جواب کسی کے پاس نہیں۔ نجومی کہتا ہے کہ نگران سیٹ اپ میں آصف ذرداری کا بڑا کردار و عمل دخل ہوگا اور پی ڈی ایم کو داغ مغفرت دینے والی جماعت بھی پی پی پی ہی ہوگی، جسے تو کرکٹ بورڈ کے چئیرمین بھی اپنا لانے کی خواہش ہے وہ سیٹ ایدجیسٹمنت بھی کہیں نہیں کرے گی، دو سے زائد سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے لیے خطرہ ہوتی ہیں۔اگر وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ یہاں کبھی جمہوریت قائم ہی نہیں ہوئی، کوئی بھی پارٹی کبھی تیس بتیس فی صد سے زائد ووٹ حاصل ہی نہ کر سکی حالانکہ جمہوریت میں 50فی صد ووٹ لینا ضروری ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 50فی صد سے بھی زائد ووٹ حاصل کیے تھے مگر اسے اقتدار نہیں دیا گیا اور یوں سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔
الیکٹیبلز کا ایک جماعت سے دوسری جماعت کی کود کا جانا دراصل عوام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اس کھیل میں عوام کہاں ہیں کیا تحریک انصاف کو انسوؤ ں میں الوداع کہتے ہوئے انہوں نے اپنے حلقے میں عوام سے مشوری کیا تھا، یہ بھی مذاق ہے کہ پرویز خٹک جو عرصہ تک اپنی کمزور حیت کے باجود بھی عمران اور فوج کے درمیان پیغام رسانی کرتے رہے ، وہ ایک مرتبہ پھر کرتادھرتاؤں کے پاس درخواست لیکر گئے تھے مگر وہاں سے انہیں بھی سیدھا پریس کلب آکر پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرنا پڑا۔ ایک تو جرم 9مئی سنگین تھا دوسرا پرویز خٹک کا علم تھا کہ انکے سیاسی حریف مراد سعید عمران خان کے زیادہ قریب ہیں، اس لئے پریس کلب کا راستہ ہی بہتر ہے ۔