یوکرائن کا شہر’’ اودیسا”

یوکرائن کا شہر ” اودیسا ” میرا اپنا شہر ہے ۔۔۔اسقدر اپنا کہ یوں محسوس ہوتا ہے ، یہ وہ مقام ہے جہاں سے میری روح کی مٹی تخلیق کی گئی ہے۔۔۔

یہاں گرمیوں کے دن لمبے ہوتے ہیں ،۔ رات نو بجے بھی شام کا سماں ہوتا ہے ۔۔۔لوگ سائیکلنگ کرتے ہیں ، چھوٹے بچے اپنے اپنے فٹ بال کے ہمراہ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔ ، بچیاں جھولا جھولتے ہوئے اپنے بچپن کے لمحے گزار رہی ہوتی ہیں اور سویرے شام چلنے والی سبک گام ہوا دل کو طمانیت بخشتی ہے ۔۔۔

بلیک سی کے گرد سیاحوں کا رش ہوتا ہے اور تقریباً ہر شخص ماہر تیراک ۔۔۔

اور سردیاں مجھے زیادہ پسند تھیں جب سہ پہر تین بجے اندھیرا چھاتے لگتا تھا تو گھروں کی بتیاں جل اٹھتی تھیں ۔۔۔بلند عمارتوں سے روشنیاں کا ارتکاز ایسا خوبصورت منظر پیش کرتا ہے کہ کسی پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے ۔۔۔بارش چاہے گرمیوں کی ہو ، برس جائے تو ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا ہے ، اور سردیوں میں یہی بارش برف باری کی صورت اختیار کرتی ہے تو منظر کی خوبصورتی دوبالا ہو جاتی ہے
یہاں مساجد بھی موجود ہیں جہاں مسلمان بہن بھائی عبادت کا خوب اہتمام کرتے ہیں ۔۔۔

گھروں میں جگہ جگہ انگوروں کی بیل موجود ہے اور ہر بیل کے انگور کا اپنا ایک منفرد ذائقہ ۔۔۔۔یہاں کے لوگ مچھلی کے شکار کے بھی خوب شوقین ہیں ۔۔۔

مگر جب سے یوکرائن میں جنگ کی شروعات ہوئی ہے ، سارے شوق کہیں چھپ گئے ہیں ، لوگ اب ٹہلتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ، خوف و ہراس کا عالم ہے ، گھر کا ہر فرد جنگ پر وطن۔کا دفاع کر رہا ہے ۔۔۔۔ کل شام جب اودیسا شہر میں بھی بم باری کی خبر سنی تو میرا دل اداس ہو گیا ۔۔۔میں نہیں جانتی کہ اگر اتنی دور رہ کر میرا دل اداس ہو سکتا ہے تو وہاں رہنے والے لوگوں کا کیا حال ہو رہا ہو گا ۔۔۔میری دعا ہے یہ سب جلد ختم۔ہو جائے ۔۔ ملک کی رونقیں بحال۔ہو جائیں اور ” اودیسا ” کے گلی کوچے دوبارہ خوشیوں سے گونج اٹھیں ۔۔۔۔

وہاں میرا بھی کچھ ” سامان ” پڑا ہے ۔۔
میرے قدموں کے نشاں
مجھے پکارتے ہوئے رستوں کی آوازیں
سمندر کے کنارے میرا عکس
سردیوں سے میری محبت
اودیسا کی شاموں میں میرا لمس
میری زندگی کا خوبصورت ترین حصہ
اور میری بیٹی کا بچپن !!!!

یوکرائن کا شہر" اودیسا"
Comments (0)
Add Comment