تعلیمی جنسی بھیڑئیے

حال ہی میں بہاولپور اسلامی یونیورسٹی میں ہونے والے شرمناک واقعہ ہمارے تعلیمی نظام کیلئے شرم کا مقام ہے جو منشیات ، جنسی حملوں اور بدترین کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے بہاولپور میں سرکاری یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی افسر اور پروفیسر سے طالبات کی برہنہ ویڈیوز برآمد ہونے اور منشیات فروشی کی شکایات سامنے آنے پر کسی نے دارالحکومت کی سفید سنگ مرمر کی عمارتوں کو نقابت کے باعث پیلا ہوتے دیکھا؟؟

کسی نے دارالحکومت ریاست کا پرچم سرنگوں دیکھا ؟؟ کسی نے وزیراعظم پاکستان کے کانپتے ہاتھ دیکھے کہ میرے ملک میں کیا ہو رہا ہے ؟؟؟ کسی نے انصاف کی بڑی عمارت کے باہر لٹکے ترازو کے توازن میں کوئی گڑ بڑھ دیکھی؟؟ میڈیا چینلز کے ؛ لوگو ؛ کو کسی نے سرمئی یا بلیک اینڈ وائٹ دیکھا؟؟؟ ریاست کے کسی ستون کی دبی دبی سسکیاں سنائی دیں؟؟؟؟ پاکستان میں اسلام کے ٹھیکے داروں نے کوئی احتجاج یا ریلی نکالی؟؟؟ نہیں ، کیونکہ اس میں ان کا ذاتی مفاد نہیں ایسے واقعات ریاست کی اخلاقی پستی کی ظاہری علامت ہے۔

بہاولپور اسلامی یونیورسٹی پاکستان کی بڑی سرکاری یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے جس میں تقریباً 52 ہزار سے زائد طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں بد قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے علم و عمل کے مراکز کم اور فیشن کدے زیادہ بن چکے ہیں اخلاقی و دینی قدروں پر بات کرنا تو مشکل بنا دی گئی ہے مگر خرافات دھڑلے سے جاری ہیں جب آپ کا پورا نظام زندگی مغرب سے مستعار لیا ہو گا تو پھر خواہ وہ تعلیمی ادارہ ہی کیوں نا ہو یہی کچھ نتیجہ ہو گا ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہی کیوں ایسے واقعات کی زیادتی ہو رہی ہے اس سوال کا جواب اس سوال میں پوشیدہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ریپسٹ سے نفرت کرتا ہے اپنے معاشرے کا کسی بھی پیمانے سے نفسیاتی تجزیہ کروا لیں نتائج حیران کن ہوں گے۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں کوئی ریپ کرتا ہے اور پکڑا نہیں جاتا تو اس کے آس پاس کے متعلقین اور دوست کہتے ہیں کہ ” وڈا حرامی اے ” یا پھر ” بڑا بدمعاش ہے ” اس حرامی لفظ کے پیچھے طاقت کا کیسا کیسا تفاخر چھپا ہے اور کمزوری کا کیسا کیسا تمسخر پوشیدہ ہے شرم کی بات یہ ہے کہ اس اسلامی یونیورسٹی میں ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے یونیورسٹی میں ایک گینگ بنا رکھا ہے جو لڑکیوں کو پوزیشن اور پاس مارکس کے عوض اپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسکی ننگی ویڈیو اور تصاویر بناکر بلیک میل کرتے ہیں۔ اس جیسے کتنے ہی جنسی بھیڑئیے تعلیمی درسگاہوں اور دیگر اداروں میں جنسی گدھ بن کر بہن ، بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں،ہماری معاشرتی اخلاقیات زوال کی طرف گامزن ہیں۔

آخر اس معاشرتی اخلاقیات کو ٹھیک کرنے کا بیڑا کون اٹھائے گا، جہاں پر بااثر قانون کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتا ہو۔۔ میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص کر عدلیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس جیسے جنسی بھیڑیوں کو قرار واقعی سزا دیکر نشان عبرت بنایا جائے۔میں اس انتظار میں تھا کب کوئی دیسی سستا لبرلز اس واقعے پر کچھ لکھ کر اظہار مذمت کریگا۔ کیونکہ دیسی سستے منافق دانشور لبرلز ھر وقت مدرسوں پر بھونکتے رھتے ھیں اور فوراً اپنی بھڑاس نکال دیتے ھیں لیکن یہاں پر ان کی پچھلے تین چار دن سے ماں مری ہوئی ھے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا کیونکہ اپنے مفاد کیلئے منہ کو تالے لگے ہوئے ہیں ؛؛؛ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔

انفرادی طور پر اصلاح اور کوشش کرنی ہوگی تب جا کر اجتماعی طور پر ایسے شرمناک واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے والدین گہری نیند سے بیدار ہوں اور قبل اس کے کہ بہت تاخیر ہو جائے خدارا اپنے بچوں اور اپنی عزتوں کو بچا لیں موضوع کافی طویل ہے جو مزید اسی کالم کے پارٹ ٹو میں تحریر کرونگا !!!!

تعلیمی جنسی بھیڑئیے
Comments (0)
Add Comment