سوشل میڈیا پر دو مختلف پوسٹوں نے ممتاز کالم نگار عبداللہ خالد خان کی یادوں کو مزید بڑھا دیا ویسے تو ہر روز وہ کسی نہ کسی بہانے یاد آتے رہتے ہیں سپین میں مقیم ممتاز شاعر لکھاری ارشد نذیر ساحل جو کہ آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں ان کی رہائش گاہ ادبی صحافتی شخصیات کا مرکز بنی ہوئی ہے، گزشتہ روز عبداللہ خالد خان کے دونوں بیٹے چوھدری عبداللہ شہریار اور چوہدری دانش بھی ان سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر گئے اس ملاقات کی انہوں نے تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تو عبداللہ خالد خان کی یادوں کی لو اور تیز ہو گئی۔
بعد ازاں فیس بک پیج Sada Apna Khori Alam پر ایک خوبصورت تحریر پڑھنے کو ملی” عظیم رائٹر عبداللہ خالد مرحوم بن چوھدری محمد اقبال بن شیخ عبداللہ ملکوی عبداللہ خالد مرحوم میکینکل انجیر تھے اور بہت اچھے رائٹر تھے کی اخبارات میں ان کے مضامین اور اداریے چھپتے تھے آپ جوانی میں ہی وفات پا گئے ۔
عبداللہ خالد صاحب والد چوھدری محمد اقبال صاحب پرانے وقتوں کے بی اے بی ایڈ تھے اور گورنمنٹ بورڈنگہائی سکول لالہ موسیٰ میں ہیڈ ماسٹر تھے اور ان کے والد شیخ عبداللہ صاحب گوجر چوھان قوم کے ایک عظیم عالم اور شیخ تھے آپ کا آبائی گاؤں راجو تھا اور آپ نے اپنی ساری زندگی دین کے فروغ کے لئے گلیانہ کے قریب گاؤں ملکہ میں گزاری اور وھاں پر درس قائم کیا اور ملکہ میں آج سے80سال پہلے گاؤں میں اجتماعی قربانیوں کا سلسلہ بھی انھوں نے شروع کیا مولوی عبد المالک صاحب بھی شیخ عبداللہ ملکوی کے معتقدین میں سے تھے اور ان کا زکر اپنی مشہور کتاب شاھان گوجر میں بھی کیا ھے ۔
اللہ کریم اس سارے خاندان کے مرحومین کی بخشش فرماے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے “ عبداللہ خالد خان کے بیٹے چوہدری عبداللہ شہریار اور چوہدری دانش عبداللہ اپنے والد محترم اور اپنے خاندان کی روایات کو خوبصورتی سے آگے بڑھا رہے ہیں خصوصا عبداللہ خالد خان کے دوستوں کو بڑی عزت دیتے ہیں ان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ان کی خوشی غمی میں اہتمام کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔
ضلع گجرات کی صحافتی تاریخ میں عبداللہ خالد خان کا منفرد مقام رہا وہ صحافیوں اور کالم نگاروں کے لیے کسی اکیڈمی سے کم نہ تھے وہ ”سائیڈ واک“ کے نام سے کالم لکھتے رہے ان کے کالم صحافتی ادبی سیاسی مذہبی حلقوں میں بڑی محبت کے ساتھ پڑھے جاتے تھے ان کا اپنا ہی منفرد انداز تھا کسی کو خراج تحسین پیش کرنا ہو کسی کو خراج عقیدت کرنا ہو کسی ادارے کے بارے میں لکھنا ہو کسی شخصیت کے بارے میں لکھنا ہو ان کا قلم خلوص اور محبتوں کی داستان لکھتا جاتا ان کی کتاب ”سائیڈ واک“ ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئی جس میں بڑی لاجواب نایاب اچھوتی تحریریں شامل ہیں جن کو پڑھ کر قاری داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
انہوں نے اپنی کتاب کا انتساب قلعہ مانگور کھوڑی عالم کے نام کرتے ہوئے لکھا ”جہاں اول اول دہلی سے آنے والے اگنی کل چوہان راجپوت آباد ہوئے چوہانوں کا یہ قلعہ شمال مغرب سے آنے والے حملہ اوروں اور غارت گروں کے راستے کی دیوار بنا رہا راجہ گھگ کے بعد چوہان راج ختم ہو گیا مگر قلعہ مانگور کے کھنڈرات جنگجو راجپوت چوہانوں کی عظمت رفتہ کی گواہی دے رہے ہیں “
انہی سے کارواں رنگ و بو ایک روز گزرا
چمن کے زرد پتے یادگاریں ہیں بہاروں کی
ممتاز صحافی کالم نگار انچارج ادارتی صفحہ 92 لاہور اشرف شریف معروف سکن سپیشلسٹ ممتاز ادبی شخصیت ڈاکٹر اظہر محمود چوہدری آف ٹھیکریاں ممتاز قانون دان دانشور بشارت احمد چوھدری ایڈوکیٹ معروف سیاست دان ماہر قانون سیف الرحمان بھٹی ممتاز صحافی کالم نگار چوھدری محمد انور چوہان ممتاز شاعر صحافی راشد منصور راشد ممتاز صحافی محمد عظیم بٹ صوفی پرویز یوسف کوثر سے جب بھی ملاقات یا بذریعہ ٹیلی فون بات چیت ہوتی ہے تو موضوع سخن عبداللہ خالد خان ہی ہوتا ہے انہوں نے بڑی پیاری خوبصورت زندگی گزاری جو ایک بار ان سے مل لیتا وہ ان کا ہی ہو کر رہ جاتا۔
انہوں نے صحافت کو روزگار نہ بنایا نہ روایتی صحافت کی ان کے تعلقات پاکستان بھر کے سیاست دانوں اور بڑے بڑے صحافیوں کے ساتھ تھے لیکن کبھی کوئی مراعات نہ لی نہ ہی قلم کے ذریعے لوٹ مار کی بلکہ قلم کے ذریعے محبتیں تقسیم کی اور ہمیشہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو اجاگر کیا اپنے شہر کی تعمیر و ترقی اور بہتری کے لیے کام کیا اور سب سے بڑھ کر لالہ موسی میں نئے لکھنے والوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی اللہ تعالی مرحوم عبداللہ خالد خان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کرے اور ان کے صاحبزادگان چوہدری عبداللہ شہریار چوہدری دانش عبداللہ ان کے دیگر عزیز رشتہ دار ان کے شاگردوں اور دوست احباب کو عبداللہ خالد خان کا صحافتی مشن جاری رکھنے کی ہمت و طاقت دے آمین