حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایک محتاط اندازے کے مطابق نو سو سال تک توحید کی دعوت دی
مگر بہت کم لوگوں نے انکی دعوت کو قبول کیا۔
کہتے ہیں جن لوگوں نے دعوت قبول کی تھی تمام افراد انکی کشتی میں سوار تھے، نسل انسانی دوبارہ نوح علیہ کی اولادوں سے شروع ہوئی ھے۔
آخر کیا وجہ تھی انکی قوم میں بہت کم لوگوں نے دعوت توحید قبول کی؟
اللہ نے انکو ھدائت کیوں نہیں دی سوال ذہن میں آتا ھے بلکہ بار بار آتا ھے۔
قرآن مجید میں حق باری تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں۔
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنِّىۡ كُلَّمَا دَعَوۡتُهُمۡ لِتَغۡفِرَ لَهُمۡ جَعَلُوۡۤا اَصَابِعَهُمۡ فِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَاسۡتَغۡشَوۡا ثِيَابَهُمۡ وَاَصَمرُّوۡا وَاسۡتَكۡبَرُوا اسۡتِكۡبَارًا ۚ ۞
ترجمہ:
جب جب میں نے ان کو بلایا کہ (توبہ کریں اور) تو ان کو معاف فرمائے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور کپڑے اوڑھ لئے اور اڑ گئے اور اکڑ بیٹھے
سورۃ نمبر 71 نوح آیت نمبر 7
ھدائت آنکھوں اور کانوں سے موصول ہوتی ھے آدمی اندھا ہو سکتا مگر کانوں سے بہرا نہیں ہو گا
اسکے برعکس کانوں سے بہرا ہو سکتا مگر اندھا نہیں ہوگا
یعنی دونوں چیزیں ایک ساتھ نہ ہوں ایسا ناممکن ھے یعنی بہرا اور اندھا ہونا۔
ہمارے بچے بھی حضرت نوح علیہ کی قوم کی روش پر چل رہے ہیں۔
ویڈیو گیم کھیلتے وقت کانوں میں ائیر فون لگایا ہوتا ھے، آس پاس کی آوازیں سنائی نہیں دیتی ہیں
آنکھیں سکرین پر جمی ہوتی ہیں بعض اوقات انکو معلوم ہی نہیں ہوتا کمرے میں کون آیا اور کون گیا۔
نئی ویڈیو گیمز ہر تھوڑے دنوں کے بعد مارکیٹ میں آجاتی ھے
بچہ ضد کرتا ھے اور والدین خرید کر دے دیتے ہیں
درحقیقت والدین اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔
والد پیسہ کمانے اور بچوں کے لیے عیش و عشرت کا سامان مہیا کرنا اپنا اولین ترجیح سمجھنے لگا ھے۔
والدہ کو بچوں کی خوراک کی فکر لاحق رہتی ھے، بچہ کمزور ہو گیا ھے کھانا نہیں کھاتا ھے وغیرہ وغیرہ
آج بچوں کی تربیت ویڈیو گیمز کر رہا ھے مختلف قسم کے گیمز آتے ہیں
اخلاقی اور غیر اخلاقی۔
والدین یہ چاہتے ہیں جب ہم تھکے ہارے گھر آئیں تو مکمل آرام کریں بچے ہمیں تنگ نہ کریں۔
اگر بچہ تنگ کرے تو اسکے ہاتھ میں ویڈیو گیم کا رمورٹ تھما دیا جاتا ھے
یا پھر موبائل۔
بچے کا زیادہ وقت ویڈیو گیمز، موبائل، ٹیب لیٹ اور کمپیوٹر کے سامنے گزرتا ھے۔
بچے کو مکمل آزادی ہوتی ھے جو چاہے دیکھے، بس والدین کو تنگ نہ کرے۔
بچے کو نہیں معلوم کب آذان ہوئی اور کب نماز ادا ہو گئی۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں اولاد اور مال دنیا کی زینت ھے۔
ہم نے دنیا کی زینت کو آخرت پر ترجیح دے دی ھے، ہم بھول گئے ہیں ہم سے سوال ہوگا اپنے ماتحت کے بارے میں۔
مال اور اولاد آزمائش ہیں۔
نوح علیہ السلام کی قوم کی طرح اپنے بچوں کے کانوں کو بند کر دیا ھے اور آنکھوں کو موبائل کی اسکرین تک محدود کر دیا ھے
اگر کوئی ان سے بات کرنا چاہے اول تو وہ سنتے ہی نہیں ہیں ، جب سنتے نہیں ہیں تو آپکی طرف دیکھتے بھی نہیں ہیں
ویڈیو گیمز کی وجہ کر انکے اندر مختلف رجحانات جنم لے رہے ہیں
شدت پسندی، اخلاقی گراوٹ، عدم برداشت اور خود پسندی یہ وہ عناصر ہیں جو معاشرے کو تباہ کر دیتے ہیں
ہماری آنے والی نسل بہری اور اندھی ہو گئی ھے، یہ کام ویڈیو گیمز سرانجام دے رہا ھے، نوح علیہ السلام کے دور میں لوگ آنکھوں پر کپڑا اور کانوں میں انگلیاں ڈال لیا کرتے تھے
ترقی یافتہ اور اسلام دشمن ممالک نے بس انداز بدل دیا ھے، اللہ رب العزت کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر۔
ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ھے
بچوں کے ساتھ وقت گزاریں انکی تربیت کریں اسلامی تعلیمات کے مطابق۔
بچے اپنا فارغ اوقات کیسے گزارتے ہیں اس پر نظر رکھیں۔
بچوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیں۔