ہمارے وطن عزیز اور باپ دادانے 1990ء کی دہائی والی سیاست کا بہت خمیازہ بھگتا ہے لیکن آج پاکستان میں نوے والی سیاست کادورواپس نہیں آسکتا۔منافرت ،نفرت ،گالی ،گولی اورتشدد کی سیاست کے علمبردارکون تھے اورکس نے ووٹ بنک کیلئے کس کوغدارکہا اورپھر وہ کس کیخلاف آپس میں اتحادی بنے یا تاریک تاریخ دیوارپرلکھی تحریر کی مانند واضح ہے ۔
ہر نسل کی سوچ پرانی نسلوں سے انتہائی مختلف ہوتی ہے، اب لوگ بہت پریکٹیکل ہیں اوروہ نعروں اورچہروں سے متاثر نہیں ہوتے ۔الحمدللہ ہمارا محبوب پاکستان تبدیل ہورہا ہے ،قومی چوروں کاجواحتساب نیب نے کرناتھا وہ اب عوام خود کررہے ہیں۔اب سیاسی شعبدہ بازوں کاشاہراہوں پرعوام سرعام گھیرائو ،محاصرہ اورمحاسبہ کریں گے، پچھلے دنوں شہبازشریف کے ساتھ کاہنہ جاتے ہوئے جوواقعہ پیش آیا وہ تومحض شروعات ہے۔میں پاکستان میں تنگ آمدبجنگ آمدکاماحول اورسیاسی منظر دیکھ رہی ہوں ۔سیاستدان تیار رہیں کیونکہ آنیوالے دنوں میں اس قسم کے مزید واقعات پیش آسکتے ہیں۔معاشرے کاہرمحروم طبقہ اپنے احساس محرومی کاانتقام ضرور لے گا۔ہمارے نوجوان منافق نہیں ،وہ اپنا غصہ نہیں چھپاتے بلکہ ان کے جذبات ہرقسم کی مصلحت اورمنافقت سے بے نیاز ہیں۔پاکستان کامستقبل باشعور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے جوسیاسی طورپربیدار ہیں وہ یقینا پاکستان کیلئے اچھی اوراہل قیادت کاانتخاب کریں گے ۔انتخابات کے انعقادمیں دیرہوسکتی ہے لیکن اس بارنوجوان اندھیر نہیں ہونے دیں گے ۔اب لوگ آزادانہ اورآزادی کیلئے اپنے ووٹ کاحق استعمال کریں گے ۔کوئی ووٹردھونس دھاندلی سے مرعوب ہوگا اورنہ خاموش رہے گا۔امید ہے ماضی کی طرح آئندہ انتخابات میں کسی قسم کی رگنگ نہیں کی جائے گی کیونکہ اس بار مشتعل عوام کاپیمانہ صبر لبیرہوجائے گا۔
سنجیدہ افراد نے ڈپریشن کے ڈر سے ٹاک شوزد یکھنا چھوڑد یے ہیں۔ اخبارات کی اشاعت بھی متاثر ہوئی ہے کیونکہ لوگ سوشل میڈیا کے سحر میں گرفتاراور کسی خوف کے بغیراس پلیٹ فارم پراپنے خیالات کااظہارکرتے ہیں۔ بہر کیف سرکاری اور نجی ٹی وی کااپنے ناظرین کے ساتھ رشتہ ابھی برقرار ہے، جونجی چینل اپنی پیشہ ورانہ ساکھ کی پرواہ نہیں کرتے وہ اپنے ناظرین سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں کیونکہ ویوورز کے پاس بہتر سے بہتر آپشن دستیاب ہے ۔پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی کی وساطت سے پی ٹی آئی کے لاپتہ رہنماء عثمان ڈارکی بازیابی بارے معلوم ہوا ،موصوف نے ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہو کر 9 مئی کے واقعات اورمحرکات سے پردہ اٹھایااورایک ایسا بیان پڑھ دیا جوشایداس کااپنانہیں تھا ورنہ وہ شخص کئی روز تک عدم پتہ کیوں رہتا۔
عثمان ڈار اپنی مرضی ومنشاء سے مسلم لیگ (ن)چھوڑکر اپنے بھائی عمرڈار کے ساتھ خودپی ٹی آئی میں آیا اوراب اپنے آپ ٹی وی پرآیا تھایاکسی دوسرے نے انتظامات کئے تھے یہ بات ابھی ایک رازہے۔ بہرکیف عثمان ڈار کے مبینہ انکشافات کو ان کی والدہ کے دبنگ اعلان اوربھائی عمرڈار کے ویڈیوپیغام نے زیروکردیا۔ عثمان ڈار کاکہنا ہے 9 مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی چیئرمین پی ٹی آئی نے کی اور ان کا حکم تھا کہ میری گرفتاری کی صورت میں فوجی عمارتوں کونشانہ بنایاجائے تاہم پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمرایوب خان سمیت متعد د رہنمائوں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں قرآن مجید تھام کرکہا کہ9مئی کے واقعات سے ہمارے چیئرمین اورہماراکوئی تعلق نہیں اورنہ ہم تشدد کی سیاست کے حامی ہیں ۔ طویل گمشدگی کے بعدعثمان ڈار کے مبینہ انکشافات ایک بڑاسوالیہ نشان ہیں اورا پنی والدہ کے پرجوش ویڈیو پیغام کے بعد عثمان ڈار خاموش ہے ۔اندرون ملک اوربیرون ملک جس پرجوش انداز سے چیئرمین پی ٹی آئی کا جنم دن منایاگیا اورٹیوٹرسمیت سوشل میڈیا پرٹاپ ٹرینڈرہااورتواورجاویدہاشمی نے بھی کہا کہ80فیصدووٹ چیئرمین ُپی ٹی آئی کوملیں گے اس کے بعد مخالفین کوانتخابات کی صورت میں اپنی سیاسی موت نظرآنافطری ہے۔
ایک بات توطے ہے 9مئی2023ء کوجوکچھ ہوا وہ ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا تاہم اس میں جوفریق سچا ہے اس کی صحت پرکوئی اثر نہیں پڑے گا،ووٹرزیقینا 9مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کومستردکردیں گے ۔جوسچائی پرہے اس کوپریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ماضی میں بھی منفی پروپیگنڈے بیک فائرکرتے رہے ہیں ،جہاں ڈراورخوف کی فضاہووہاںعوام بظاہرخاموش ہوجاتے ہیں لیکن اپنافیصلہ سناتے اورووٹ کی پرچی پرمہرلگاتے وقت وہ اپنے زندہ ضمیر کومایوس نہیں کرتے ۔اس الیکشن میں کھچڑی نہیں پکائی جاسکتی کیونکہ اس میں جوکامیاب ہوگااسے دوتہائی اکثریت ملے گی اورمنتخب وزیراعظم ماضی کی طرح اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ کاسامنا نہیں کرے گا۔پاکستان تیزی سے ٹوپارٹی سسٹم کی طرف بڑھ رہا ہے ،آئندہ انتخابات میں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں یاپریشر گروپ آئوٹ ہوسکتے ہیں اورپاکستان میں دوپارٹیاں باقی رہ جائیں گی ،ان میں ایک اقتدارمیں اوردوسری اپوزیشن میں اپنااپناآئینی کرداراداکرے گی اورایساہونے سے ہماری ریاست ،معیشت اورجمہوریت پرمثبت اثر پڑے گا۔
پچھلے دنوںشاہدرہ کی ایک تنگ گلی میں جلسہ کر کے مسلم لیگ(ن) نے اپنابھرم گنوالیا۔یہ جماعت اپنی مقبولیت اورقبولیت دونوں سے محروم ہوگئی ہے ۔ لاہور شریف خاندان کے ہاتھوں سے پوری طرح نکل گیاہے۔سیاسی پنڈت تونوازشریف کی وطن واپسی سے انکار کررہے ہیںکیونکہ عوام کی نبض دیکھتے ہوئے نوازشریف کامرض لوٹ آیا ہے۔ گزشتہ روز شہباز شریف کوگاڑی سمیت جس طرح روکاگیا اوروہاں مشتعل عوام نے شہبازشریف کیخلاف جو پرجوش نعرے لگائے اس سے صورتحال مزید واضح ہوگئی ہے۔ ایک طرف وہ سیاسی اسیر ہے جس کی جماعت پرپہرے ہیں لیکن وہ جیل میںہوتے ہوئے بھی پاکستانیوں کی محبت اورعقیدت کامحور ہے جبکہ دوسری طرف وہ
لوگ ہیں جوسیاسی سرگرمیوں میں آزاد ہیںلیکن کسی نہ کسی شاہراہ پر مشتعل ہجوم انہیں بار بار روکے گا۔جس طرح سوشل میڈیانے کرنٹ اورپرنٹ میڈیا کوچاروں شانے چت کردیاہے اس طرح انتخابات میں بھی قومی چوروں کوشکست فاش ہوگی اورپاکستان میں ایک نیا دورشروع ہوگا۔