16دسمبر پھر نہ آنا

پیدا تو نلہ اپر خانپور ہزارہ میں ہوا اور بعد میں ہم گوجرانوالہ آ گئے ،یہیں سے میں نے پرائمری کی ایجوکیشن حاصل کی بعد میں عطا محمد اسلامیہ اسکول سے میٹرک کیا اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی لاہور میں 1971 میں داخلہ لے لیا تو صبح سویرے دو تین ٹرینیں چلتی تھیں ایک لالہ موسیٰ دوسری اباؤٹ ٹرین تیسری خیبر میل تو ان میں جو سیالکوٹ سے چلتی تھی اباؤٹ ٹرین اس میں زیادہ تر ہم جایا کرتے تھے جو لاہور اٹھ درس پہ پہنچتی تھی یہ بڑی زبردست ٹرین تھی لالہ موسی سے چلتی تھی سوری ایک تو یاد نہیں رہتا مجھے بات لکھتے ہوئے لالہ موسی سے تو پانچ چالیس پہ چلتی تھی اباؤٹ ٹرین سیالکوٹ سے جو گوجرانوالہ پہنچتی تھی 6.10 پہ تو یہ ٹرین لاہور پہ جا کے ہمیں 8.10 پہ اتارتی تھی گوجرانوالہ سے آگے کامو کی ،مریدکے، پھر میرا خیال ہے کالا شاکاکو شاہدرہ بادامی باغ اور پھر لاہور دلدار پرویز بھٹی اسی ٹرین میں ہمارے ساتھ جایا کرتے تھے اسلامیہ کالج سول لائن میں وہ انگریزی کے استاد تھے، ہماری بڑی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے ڈبے میں سوار ہوں ان کی باتیں سنیں۔

رات کو آنے والی ٹرین میں کبھی کبھی پتہ چلتا تھا تو ہمیں ان سے بات کرنے کو دل کرتا تھا تو وہ کہتے ہیں کہ میرا آپ لوگوں میں بڑا مقام ہے لیکن جب میں گھر جاتا ہوں تو میرے بڑے بھائی یہ کہتے ہیں کہ دلدار اور لے کے ا یار دہی تو ساتھ میں وہی کہتے تھے سگ باش لیکن برادر خرد نہ باش کہ اپ کتا بن جائے لیکن چھوٹا بھائی نہ بنو تو بڑی یادیں اس ٹرین میں ہمارے ساتھ تھیں ایک لڑکا سردیوں کے دنوں میں اوپر برتھ پہ بیٹھا مکیش کے گانے سنایا کرتا اور یہ انہی د نوں کی بات ہے کہ جب سانحہ مشرقی پاکستان ہوا تو اس نے جب یہ گیت سنایا تو ہماری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اس نے یہ پڑھا کے جھوم جھوم کے ناچو آج گاؤں آج گاؤ خوشی کے گیت رہے آج کسی کی خوار ہوئی ہے آج کسی کی جیت رہے تو یہ گانا سن کے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور لڑکے بھی تھے ہم نے یقین کریں ٹوٹتے جب پاکستان دیکھا تو بہت دکھ ہوا یہی دسمبر کے دن تھے ایک دو دن بعد 16 دسمبر بھی آ رہا ہے اس رات جو 16 دسمبر سے پہلے والی رات تھی ہم بابا ابراہیم سے پوچھتے تھے کہ بابا جی آپ تو کہتے تھے کہ جموں کے پل پر ہماری فوجیں پہنچ چکی ہیں اور ایک تھوڑا سا پلی پار کرنا ہے تو جموں شہرآجائے گا اور کشمیر فتح کر لیں گے اگلے دن ڈاکٹر شمس الدین کی دکان کے سامنے میں بیٹھا تھا تو مکیش کا یہ گیت سنا ،آج کسی کی ہار ہوئی ہے اور کسی کی جیت رہے میری آنکھوں میں آنسو آئے تھے اور آج بھی جب میں لکھ رہا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو ہیں۔

بیجی نے کہا کہ افتخار تم نے کھانا نہیں کھایا میری بیٹی کو نہیں پتہ کہ پاکستان کیسے بنتا ہے اور ٹوٹتا کیسے ہے کس نے توڑا ہے اور کس نے پاکستان بنایا ہے بالکل سادہ سی میری بےجی تھی مجھے کہتی ہیں بیٹا کھا لو میں نے کہا ماں جی میں کھانا نہیں کھاؤں گا اس سے کہا کہ تم نے اپنی بھینس کو بھی نہیں چارہ ڈالا اس کا نام کالو تھا ہم گجروں کی یہ عادت ہے کہ بھینسوں کے بھی نام رکھتے ہیں اپنے جیسے اس لیے ہمیں ان سے پیار ہوتا ہے وہ اللہ کا نور ہمیں دیتی ہیں سبز ڈالتے ہیں سفید ہمیں لٹاتی ہے وہ بھی کرلاتی رہی میں سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان ٹوٹنے پہ شور کر رہی تھی میں نے کہا بھیجی میں اس کو بھی نہیں کھلاؤں گا اور اس نے کہا میری ماں نے کہا کہ آج تم اس کو کھانا نہیں کھلاؤ گے تو رات کو دودھ کہاں سے ہم لیں گے یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم قسم و پرسی کی حالت میں تھے ہم نے ایک گلاس دودھ رکھنا ہوتا تھا اور باقی سارا دن ماجے کی دکان پہ جا کے بیچ دیتے تھے پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہو گئے میں نے بھینس کو کھلایا، ساتھیو لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کیسے ٹوٹا میں تو پاکستان بننے کی بات کرتا ہوں ٹوٹا اب آپ کو پوری قوم کو پتہ لگ جائے گا کہ لوگ کیسے ملکوں سے الگ ہوتے ہیں اس لیے الگ ہوتے ہیں کہ انہیں الگ کر دیا جاتا ہے معنی کہ شیخ مجیب الرحمان اگر تلا سازش کی اس میں بھی تھا کہ معنی اس نے پاکستان توڑنے کی کوشش بڑے عرصے سے کی تھی لیکن 1971 میں پاکستان جو ٹوٹا اس کا حق اس کو نہیں دیا گیا بڑے پریشان ہو گئے اب تو بڑے ہی آسانی سے آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے کیا کھلواڑ کیا جا رہا ہے کبھی اڈیالہ جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور کبھی اس کو نشان بھی نہیں لیے 1971 میں 70 کے انتخابات میں یہ نہیں ہوا تھا۔

عوامی لیگ کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تھی اس کے نشان بھی اس کو دے دیے گئے تھے لیکن یہ نہیں تھا آج کی طرح عوامی لیگ نے یہ ضرور کیا کہ وہاں سے انڈین کی فوج کو بلایا آپ نے اندر دخل اندازی کرنے کے لیے اور کہا کہ آجاؤ تم مکتی بہنے کی شکل میں قادر بانی کی شکل میں ہم آپ کا ساتھ دیں گے فوج ادھر سے انڈین کا مقابلہ کر رہی تھی اور پیچھے سے بنگالی اور قادر بانی ان کے اوپر حملہ کر رہے تھے چند لوگ جنہیں ہم بہاری کہتے ہیں اور چند بنگالی جو آج حسینہ واجد کی بدبخت حکومت کا شکار ہیں اور پھانسیوں پہ لٹکائے جا رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت اسلامی کے لوگ ہیں مرنے دیا جائے ان کو البدر الشمس اور جماعت اسلامی یہ پاکستان کے لیے لڑ رہے تھے اور وہاں کی مسلم لیگ بھی غلام اعظم بھی اور چوہدری عبدالقادر بھی مجھے اب ان کے نام یاد نہیں ہے لیکن اتنا پتہ ہے مولوی فرید کی گود میں میں بیٹھا تھا 15 سال کی عمر میں روح الامین کی گود میں بیٹھا تھا۔

گوجرانوالہ کے جلسوں میں خواجہ رفیق کو سنا تھاگوجرانوالہ کے جلسوں میں ایم حمزہ کو سنا تھاگوجرانوالہ کے جلسے میں اور بہت سارے لوگ تھے کہ جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا اور ایک ان میں راجہ تری دیو رائے بھی تھے جو سلڈ سے جیتے تھے وہ بھی پاکستان کے لیے ہمارے دوست سلیمان کھوکھر اپنی پنجابی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ مولوی فرید کے اوپر جب مفتی بانو والے ائے تو انہیں کہا کہ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگاؤ تو مولوی فرید نے کہا سچی میرے دیسی عزت اچی میرے دیش دی شان جیوے جیوے پاکستان یہ ہمارا دوست آج بھی پاکستان کے لیے کر لاتا ہے اپنے کالموں میں پاکستان کو یاد رکھتا ہے ہم اس دور کے باسی ہیں جو پاکستان کے لیے سوچتے تھے اور پاکستان کے لیے جیتے ہیں اب نئی نسل کو پاکستانیت نہیں پڑھائی جاتی خاص طور پر وہ مدارس جو انگلش میڈیم ہیں وہ تو پاکستان اور انڈیا کو ایک سمجھ رہے ہیں اور پاکستان کی تقسیم پر سوال اٹھاتے ہیں یہی بچے آگے چل کر سول سروس میں آئیں گے 16دسمبر اگر زندہ رکھنا ہے تو دیسی اسکول کے بچے زندہ رکھیں نہ مولوی فضل کے مدارس اور نہ ہی انگریزی مدارس پاکستان کے نام لیوہ پیدا کر رہے ہیں آپ اپنے بچوں کو دو نیشن تھیوری پڑھائیں کشمیر سمجھائیں میں کوریا گیا تو ان سے پوچھا کہ آپ نے ترقی کیسے کی تو انہوں نے کہا کہ ہماری مائیں جب ہم بہت چھوٹے ہوتے ہیں تو ہمیں جاپان سے نفرت سکھاتی ہیں کیونکہ جاپان نے ہماری عورتوں کی دوسری جنگ عظیم میں عصمت ریزی کی اور پھر یہ بھی بتاتی ہیں کہ آپ ٹیکنالوجی میں جاپان کو شکست دیں اور یہی وجہ ہے ہونڈاہے ٹیوٹا کو پیچھے چھوڑا اور یہی ہم اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ آپ نے ٹیکنالوجی میں انڈیا کو پیچھے چھوڑنا ہے اور 16 دسمبر کا بدلہ لینا ہے۔

باقی جو لوگ آج پاکستان کے حالات کو مشرقی پاکستان بنانے میں لگے ہوئے ہیں ان سے بھی درخواست ہے کہ خدارا ماضی سے سبق حاصل کریں آج عمران خان نعرے لگا کے کہتا ہے کہ ہم عوام کے ساتھ ہیں اور عوام اپنی فوج کے ساتھ لیکن اس کا جواب عمران خان کو کیا مل رہا ہے کہ اس کی پارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتی اس کو بلے کا نشان نہیں دیا جا رہا تو بتائیں 70 سے 80 فیصد تک اکثریت رکھنے والا عمران خان کا یہ بہت بڑا حوصلہ ہے کہ اس نے شیخ مجیب کی طرح غداری نہیں کی اس نے انڈیا کو نہیں بلایا وہ آج بھی پاکستان کی فوج کو اور پاکستان کے عوام کو محبت سکھاتا ہے پیار سکھاتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment