شجر سایہ دار کی موت

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی مرنے کے لیے آئے ہیں

آج ہمارے خاندان کی انتہائی معتبر و عظیم ہستی مامو ں چوہدری ریاض احمد مرحوم کی برسی ہے اورآج کے دن انہیں بچھڑے ہوئے ہم سے دو سال ہو گئے ہیں اور آج میں لکھنے پر مجبور ہوں کہ واقعی ہم ایک سایہ دار شجر سے محروم ہو گئے ،کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ ہم سب انہیں یاد نہ کرتے ہوں، انتہائی شریف النفس اور فرشتہ صفت شخصیت کے مالک تھے، ہر امیر غریب اور چھوٹے بڑے کے ساتھ یکساں احترام سے پیش آتے ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کبھی بھی وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا، ایک سیلف میڈ اور کامیاب انسان تھے لیکن کبھی بھی اپنے ماضی کو نہ بھولے، بڑے عہدے اور بڑی آسائشیں حاصل کرنے کے باوجود انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ پیش آتے۔

ان کی شخصیت کا یہی پہلو انہیں اپنی فیملی میں دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کرتا ہے، ہمیشہ اپنے سے زیادہ اپنے عزیز و اقارب کی اور اپنے اہل علاقہ کی فکر کرتے بہت سخی اور کشادہ دل کے مالک تھے، اللہ تعالی نے انہیں بہت ساری دنیاوی نعمتوں سے نوازا تھا لیکن انہوں نے کبھی بھی اس پر فخر اور غرور نہ کیا اور ہر شخص کو تلقین کرتے تھے کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ رب تعالیٰ کا میری ذات پر خاص کرم ہے میں اس قابل نہیں ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ رب تعالیٰ کی دی گئی ان نعمتوں کو انہوں نے اپنے تمام عزیز و اقارب کے لیے وقف کر دیا ۔

انہوں نے کوٹھیاں اور پلازے جوڑنے کی بجائے اپنے رشتہ داروں اور اپنے فیملی ممبر کو جوڑنے کی بھرپور کوشش کی اور مرتے دم تک اپنے بہن بھائیوں اور فیملی ممبرز کا بھرپور انداز میں خیال کیا جس میں ہم سب اہل خانہ اور ہمارے تمام دیگر رشتہ دار اور عزیز و اقارب شامل ہیں، وہ اپنی فیملی کے تمام چھوٹے بڑوں کے ہمراز تھے اور ان کا طریقہ کار ایسا تھا کہ انہیں ہر شخص کی تکلیف گھر بیٹھے ہی محسوس ہو جاتی تھی اور وہ اس کا ہر ممکن تدارک کرنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے، تا وقت جب تک کہ وہ اس مصیبت یا پریشانی سے نکل نہ جائے۔

شرافت عجز انکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے گھر کی نیم پلیٹ پر اپنے نام کے ساتھ صرف ریاض احمد لکھا ہوا تھا ،اکثر جب ہم ان سے پوچھتے کہ آپ نے اپنے نام کے ساتھ چودھری کیوں نہیں لکھا؟ تو وہ کہتے تھے کہ میں اس دنیاوی جھوٹی شان و شوکت کا قائل نہیں ہوں ،بیٹا چوہدری بندہ اپنے معاملات اور اپنے کردار سے بنتا ہے ،ان کی وفات سے ہمارے خاندان کا ہر فرد اپنی جگہ پر غمگین ہے لیکن ہمارے گاؤں اور اہل علاقہ کے افراد بھی ان کی شخصیت کو کبھی نہیں بھولے ہمیشہ ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور ان کی گمنام نیکیوں کا ذکر کرتے ہیں جو زندگی میں ہمیں معلوم نہیں ہو سکی ۔

ان کی زندگی کا یہ پیغام تھا مجھے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے، وہ اللہ کا دیا ہوا ہے اور اللہ کا دیا ہوا اللہ کے بندوں پر اور خاص طور پر اپنے عزیز و اقارب اور اپنے اہل علاقہ پر خرچ کرنے والے ہی دنیاوی وہ اخروی سکون حاصل کرتے ہیں، میری رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ماموں ریاض کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین اور ان کے اہل خانہ کو بھی صبر عطا کرے۔آمین

chaudhry abid mukhtarشجر سایہ دار کی موت
Comments (0)
Add Comment