و من شرِ حاسد اذا حسد
ترجمہ: حکمِ خداوندی اور (میں پناہ مانگتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے ۔
ناظرینِ اکرام مجھے اپنی علمی کم ماہیگی کا پوراپورا احساس ہے جس کے اعتراف نے الحمد و للہ عاجزی اور انکساری کی لازوال نعمتوں سے نواز رکھا ہے اور تہہِ دل سے ربِ کریم کا شکر گزار ہوں کہ اس نے زمینی حقائق کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کیے جانے کی صلاحیت بخش رکھی ہے جس کی بنا پر وقتاً فوقتاً آپ جیسے صاحبِ علم و دانش خواتین و حضرات کے حضور حاضری کی سعادت کو باعثِ افتخار سمجھتا ہوں ۔ ہر تحریر یا تقریر خواہ وہ کتنے ہی منجھے ہوئے ادیب، صحافی ،قلمکار یا گفتار کے ماہر ہی کی کیوں نہ ہو اور اسے کتنے ہی غیر جانبدارانہ اندازِ فکر سے پیش کیا جائے ، باشعور ناظرین اور قارئین موصوفین کے ذہنی جھکائو کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ انگریزی کا ایک مشہور محاورا ہے :
Your mind is govern by the last book you read.
قارئین ِ اکرام اس تمہید کا مقصد آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ میں زندگی کے پہلے پینسٹھ سالوں تک افواجِ پاکستان کی شدید محبت میں مبتلا تھا جس کی دو وجوہات تھیں ایک تو میرے خاندانی حالات و واقعات اور دوسرا پرنٹ میڈیا ہرچند کہ لفافہ صحافت کی اصطلاح پچھلی ایک دو دہاہیوں ہی سے سننے میں آئی ہے مگر ان کی مختلف روپ میں موجودگی قیامِ پاکستان ہی سے چلی آرہی ہے اور قوم کو گمراہ رکھنے میں انہوں نے بھر پور کردار ادا کیا ۔
مگر اب دور بدل چکا ہے سوشل میڈیا کا بڑا کمال یہ ہے کہ یہ معلمہ سازی کو فوراً بے نقاب کرتا ہے خواہ وہ کتنی ہی محارت اور سلیقے ہی سے کیوں نہ کی جائے ۔ جیسے پاکستان الیکشن کمیشن کے کارکنان کی بد نیتی جو آٹھ فروری تک ہر ممکنہ طریقے سے دیگر حکومتی اداروں کی معاونت سے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جانے کے لیے پورے زور و شور سے سامنے آتی رہے گی اور یقیناً سپریم کورٹ کے فیصلے جسے باشعور پاکستانی عوام کی اکثریت9مئی نمبر 2ہی سمجھتی ہے سے خوش بھی ہوں گے ۔
ایسے فیصلوں سے بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان عدلیہ کے ایک سو تیس 130نمبروں میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے کمی کی کوئی توقع نہیں ہے مگر نوشتہِ دیوار کو صاف پڑا جا سکتا ہے اور دعا گو بھی ہوں کہ اللہ کرے میرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں کہ 1971 کی طرح ایک بار پھر پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کا گٹھ جوڑ اگر اکثریتی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے اور اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامع پہنانے میں کامیاب ہو گیا تو اس بچے کچے پاکستان کا کیا بنے گا اور پھر قفے افسوس ملنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔
اس لیے مناسب سمجھتا ہوں کہ عوام الناس کو بالعموم اور حفاظ اکرام اور قاضی صاحبان کی توجہ بالخصوص قرآنِ مجید فرقانِ حمید جو ا ل م سے لے کر والناس تک سراپا رشد و ہدایت ہے کہ درج بالا صرف پانچ چھ ۵/٦ الفاظ ” و من شرے حاسد اذا حسد ” پہ غور و فکر فرمائے جانے کی دعوت دوں جس سے وہ اپنے آپ کو رول ماڈل ثابت فرما سکیں ۔ وگرنہ قول و فعل کا تضاد تو صریحاً منافقت ہے جسے عام لوگ بھی کسی حد تک جان جاتے ہیں مگر اصل معاملہ تو بندے اور خدا کا ہے اور بقول حضرتِ غالب:
کعبہ کس منہ سے جاتے ہو غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔۔