عمر کوئی پینتا لیس برس ، درمیانہ قد ،چھوٹی چھوٹی آنکھیں ،پیٹ کافی آگے نکلا ہوا ، اس نے ایک جرسی نما بنیان جس میں کافی سوراخ ہوچکے تھے وہ پہن رکھی تھی جبکہ اس کے اوپر ایک کوٹ نما جیکٹ زیب تن کر رکھا تھا ، نیچے ایک ڈھیلی ڈھالی پینٹ اور اس پر لانگ بوٹ جو عموماََ جاپان میں مزدور کام کرتے وقت پہنا کرتے ہیں، میں اس جاپانی شخص کا جائزہ لے رہا تھا جو میرے پاس میرے آفس کو ریفارم کرنے کے لیے ایک دوست کے ذریعے آیا تھا، اس کانام تاکاشی تھا اور یہ ایک جاپانی دہاڑی دار مزدور تھا ،یہ گھروں کی مرمت اور تعمیر نوع کا ماہر کاریگر تھا ۔
مجھے ان دنوں ایسے ہی ایک ماہر کاریگر کی ضرورت تھی جو میرے آفس کو ریفارم کرسکے ،سارے معاملات طے ہوچکے تھے لہذا میں نے اسے دو دن بعد کام شروع کرنے کا کہا تو اس نے آج سے ہی کام کرنے کی درخواست کی جس کے لیے میں تیار نہ تھا لہذا اگلے رو ز سے کام شروع کرنے پر ہم دونوں رضا مند ہوگئے ، وہ کچھ قدم دور واپس جانے کے بعد واپس پلٹا اور کچھ ررقم ایڈوانس میں طلب کی جو میں نے اسے ادا کردی جس کے بعد وہ خوشی خوشی واپس چلا گیا ، اگلی صبح چھ بجے سے وہ میرے دفتر کے باہر موجود تھا اور نو بجے تک میرے اور دیگر اسٹاف کے پہنچنے کا انتظار کرتا رہا ،میں نو بجے دفتر پہنچا تھایہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ اسکی بیگم اور دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اہلیہ اس کی مدد کے لیے ساتھ آئی ہے جبکہ ایک بیٹی جو دس سال کی تھی اس کے اسکول کی چھٹی ہے جبکہ بیٹا ابھی تین برس کا ہے اور اس کا داخلہ نہیں ہوا ہے ، وہ اپنی ایک چھوٹی اور کافی پرانی گاڑی پر آیا تھا اور بچے اس گاڑی میں ہی کھیل رہے تھے ، تاکاشی نے کام شروع کیا اور جس محنت اورصفائی ستھرائی سے اس نے کام شروع کیا وہ بہت معیاری تھا اور مجھ سمیت سب اس کے کام سے بہت متاثر تھے۔
اگلے دس دن رو ز وہ صبح چھ بجے تک پوری فیملی کے ساتھ آجاتا اور شام تک محنت سے کام کرتا ، لیکن ایک بات جو میں نے نوٹ کی کہ سردی کے دنوں میں وہ کام ختم کرنے کے بعد جانے میں جلدی نہیں کرتا تھا بلکہ کئی کئی گھنٹے دفتر کے کسی کمرے میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھا رہتا، کئی دفعہ میں نے اسے کھانا بھجوایا لیکن اس نے کھانا کھانے سے بھی انکار کردیا بلکہ اپنی مزدوری کی رقم سے ہی وہ کسی دکان سے کھانا لاتے اور ایک طرف بیٹھ کر کھانا کھالیتے ، وہ رات گئے تک دفتر میں ہی رہتے ، پندرہ دن بعد کام ختم ہوا تو میں اپنی جاپانی اہلیہ کو دفتر دکھانے کے لیے لایا تو ان کی ملاقات تاکاشی اور اس کی اہلیہ سے بھی ہوئی ، اس روز پہلی دفعہ تاکاشی کی اہلیہ نے میری جاپانی بیگم سے کہا کہ اس کے تین سالہ بیٹے کو سردی کے سبب بخار چڑھ گیا ہے کیا وہ آج کی رات ہمارے دفتر میں گزار سکتے ہیں ؟ میری اہلیہ نے دریافت کیا کہ تمہارا اپنا گھر کہاں ہے جس پر اس خاتون کی آواز بھراگئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
اس نے بتایا کہ ان کے پاس گھر نہیں ہے اور کئی ماہ سے کبھی گاڑی اور کبھی کسی دوست کے گھرگزارا کررہے ہیں ،بیٹے کو بخار ہے لہذا ہم دوست کے گھر نہیں جارہے کہ بچے کو کھانسی ہوتی ہے تو رات کو ان کو تکلیف نہ ہو ، آپکا دفتر خالی رہتا ہے اس لیے آپ سے درخواست ہے ، وہ رات اس جاپانی خاندان نے دفتر میں گزاری اگلی صبح ہم نے انھیں ایک مکان کرائے پر دلایا ،اور بنیادی ضروریات کے ساتھ اس جاپانی خاندان کو اس گھر میں منتقل کرادیا ، تاہم تاکاشی نے اس شرط پر اس نئے مکان میں جانے پر رضا مندی ظاہر کی کہ وہ تمام رقم کام کرکے ہمیں ادا کردے گا ،اگلے مزید چند دن تاکاشی نے میرے پاس کام کیا لیکن اب وہ اکیلا آتا تھا اور میں اس کی خودداری اور اس کو ملنے والے آرام پر خوش بھی تھا ۔
جاپانی قوم کی ایمانداری کے حوالے سے ایک اور واقعہ، چند ہفتے قبل امریکہ سے میرے ایک صحافی دوست راجہ اختر خانزادہ اپنی فیملی کے ساتھ جاپان تشریف لائے ایک عشائیے پر وہ کچھ عرصہ قبل اسپین میں اپنی اہلیہ کے پرس سے موبائل چوری ہونے کے واقعے کے بارے میں بتارہے تھے اور میں انھیں جاپانی عوام کی ایمانداری کے قصے سنا رہا تھا ، اگلے دن ان کی واپسی تھی اور اتفاق سے ان کے صاحبزادے کا قیمتی موبائل ایئر پورٹ جاتے ہوئے کہیں گرگیا ، ایئر پورٹ سے انکے صاحبزادے کا مجھے فون آیا تو میں نے ان سےکہا کہ یا تو پویس یا کسی ایئرپورٹ اسٹاف کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرکے سکون سے امریکہ روانہ ہوجائیں ، یہی ہو ا تین دن بعد مجھے میرے دوست کا فون آیا کہ عرفان بھائی جاپانی پولیس کا فون آگیا ہے اور فون مل گیا ہے جو امریکہ پوسٹ کردیا جائے گا ، اور ہم ایک بار پھر جاپانی قوم کی ایمانداری کے گن گانے لگے۔