انتہاہی معزز و محترم قارئین اکرام یوں تو وطن عزیز سے بغرض تلاشِ معاش بیرون ممالک ہجرت کا سلسلہ شروع ہوئے پون صدی ہونے کو ہے اور اب ہماری تیسری اور چوتھی نسل بفضل تعالیٰ پروان چڑھ رہی ہے مگر دل آج بھی وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں اور تمام اوورسیز پاکستانی اس جنتِ ارضی سے ہزاروں میل دور رہتے ہوئے بھی ہمہ وقت متفکر و متذبذب رہتے ہیں اور مہذب و ترقی یافتہ دنیا سے حاصل شدہ علم تجربات اور مشاہدات کو اصلاحِ معاشرہ کے ضمن میں لائے جانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ایسو سی ایشن آف کشمیر اولڈ سٹوڈینٹس AKOS Int اور G10 کا ایک مشترکہ وفد آزاد کشمیر اور پاکستان ٹورازم پروموشن کے حوالے سے اپر نیلم شاردہ سے لیکر کے پی کے، اسلام آباد ،لاھور ،ملتان، کراچی، گوادر اور کوئٹہ تک کم و بیش سات ہزار کلومیٹر سے زائد کے سفر میں عوام الناس کے لیے انتہائی ناکافی سہولیات جا بجا بکھری ہوئی غلاظت اور گندگی کے ڈھیر اور اس پہ ظلم یہ کہ جس ملک کی آبادی کی غالب اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں اربوں روپے ماہانہ اشرافیہ کے غیر ضروری نخروں اور غیر تعمیری اخراجات پر خرچ چہ معنی دارد ۔
برطانیہ کا شمار دنیا کی پانچویں بڑی اکنا می کے طور پر ہوتا ہے جہاں پارلیمنٹ کے ممبران کی تعداد ساڑھے چھ سو ہے اور قانون نے وزراء کی زیادہ سے زیادہ تعداد بائیس مقرر کر رکھی ہے مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ تعداد شاز و نادر ہی پوری ہوتی ہے اب بھی اسوقت کیبنٹ میں صرف پندرہ وزراء ہیں جس کے مقابلہ میں آزاد کشمیر اسمبلی کی تعداد پچاس سے کم جن میں انتیس وزیر اور باقی مشیر اِسی طرح برطانیہ میں کسی بیوروکریٹس یا جج کے پاس کوئی سرکاری گاڑی ڈرائیور یا گھریلو ملازمین نہیں ہیں مگر پاکستان میں نو آبادیاتی فرسودہ نظام محض دو یا تین فیصد لوگوں کی خوشنودی کے لیے قا ئم رکھا ہوا ہے جبکہ ستانوے فیصد لوگ مہنگاہی اور غربت میں پسے جا رہے ہیں اس موقع پہ ملکی سطح پہCampaign : No to protocol شروع کیے جانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قومی دولت کے غیر ضروری ضیاں کو روکا جا سکے اور وہ پیسہ عوام الناس کی فلاح و بہبود پہ خرچ کیا جا سکے ۔
مہذب ممالک میں ممبران پارلیمنٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی پنشن وغیرہ نہیں صرف ایک سال کا الائونس دیا جاتا ہے تاکہ اس عرصے میں وہ اپنے لیے کسی مناسب کام کاج کا بندوبست کر سکیں ۔ ججز کی کام کے مقابلہ میں بے تحاشا تنخواہیں پنشن اور دیگر مراحات فوری طور پر پچاس فیصد کم کیے جانے اور اگلے پانچ سالوں میں بتدریج کم کرتے ہوئے دیگر گریڈ کے برابر کیے جانے کی ضرورت ہے ،برطانوی سول سروس ہی کی طرح میرٹ مقدم انکریمنٹ اور ترقی پرفامنس ریلیٹڈ ہونی چاہیں ۔
ججز کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات تعصبات حسد اور بغض سے بالا تر ہو کر انصاف اور سچائی تک پہنچنے میں پوری دیانتداری سے کام لیں اور اگر اس بات کا ہلکا سا بھی شعبہ ہو کہ وہ ایسا نہیں کر پائیں گے تو پھر نظامِ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کیس کی سماعت کا حصہ نہ بنائیں مگر شومیے قسمت نظریہ ضرورت سے لیکر اب تک ہر ایک کے کرتوتوں کی وجہ سے ملک دولخت ہو چکا ہے او پاکستانی نظامِ عدل اب شا ید ایک سو تیس ١٣٠ نمبروں سے بھی متجاوز ہو چکا ہو گا ۔ جھوٹ کو کتنے بھی سلیقے سے بولا جائے یا اس کی کتنی بھی پردہ داری کی جائے اسے ایک نہ ایک دن سامنے آنا ہی ہوتا ہے جیسے گزشتہ پچھتر 75 سالوں کے سر بستہ راز اب عیاں اور مکروہ چہروں کے بے نقاب ہونے سے ایسے اداروں جن سے قوم عشق کی حد تک محبت کرتی تھی اب چند کرداروں کی وجہ سے پورے کا پورا ادارہ بدنام اور قابلِ نفرت بنتا جا رہا ہے جس طرح گزشتہ اٹھارہ ماہ سے بے ضمیر سیاستدان عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ + الیکشن کمیشن ایک ایسی جماعت جس کی چاروں صوبوں میں روٹس موجود ہیں اور جس کے بانی میں قوم و ملک کو متحد رکھنے کی صلاحیت موجود ہے اسے دیوار سے لگا کر کیا ،ایک بار پھر 1971 جیسے حالات پیدا کیے جانے کی کسی گھنائو نی سازش کا حصہ تو نہیں ؟
قومیں اصول انصاف کردار اور سچائی سے پہچانی جاتی ہیں گزشتہ ہفتے ہم چند دوستوں کو البانیہ جسے یورپ کا پسماندہ ترین ملک سمجھا جاتا ہے جانے کا اتفاق ہوا تو سر ندامت سے جھک گئے کہ وہ بھی ہم سے سینکڑوں سال آگے ہیں ،خدمتِ انسانیت کا انتہائی اعلیٰ معیار ،صفائی مثالی ہر ٹورسٹ سپاٹ پہ صاف ستھرے واش روم ،بیرونِ ممالک سے سیاحوں کو لائے جانے کے لیے ائیر لائنز، سستے ترین ٹکٹس کا اجراء کرتی ہیں ،لندن سے البانیہ اور واپسی کا ٹکٹ تیس پائو نڈ مقامی لوگوں کے رویے انتہائی خوش آمدیدانہ نتیجتاً مثبت نتائج کیسے سامنے آتے ہیں اس کی ایک مثال بروز اتوار ہم نے دارالحکومت میں ایک چھوٹی سی جھیل TIRANA CENTRAL LAKEکے صرف ایک واکنگ ٹریک پہ دو گھنٹے کا وقت گزارا اور محسوس کیا کہ جتنے سیاہ وہاں ایک دن میں آ کر اس ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ہمارے ملک میں پورے سال میں اتنے نہیں آ پاتے ۔
وزیرِ سیاحت جناب وصی شاہ صاحب کا یورپ اور دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں آنا جانا رہتا ہے اور شاعر چونکہ فطری طور پہ تخلیقی ذھن کے مالک ہوتے ہیں اس لیے وہ ایسے مقامات سے بہتر آئیڈیاز لیکر اس ملٹی بلین انڈسٹری میں بہتر مثبت تبدیلیاں جو ملک اور قوم کے مفاد میں ہیں لا سکتے ہیں ۔ ملک کے اندر لا اینڈ آڈر کی صورت اگر بہتر نہیں ہے اور اوورسیز ورکرز کو ائیر پورٹس سے باہر نکلتے ہی پولیس ناکوں پہ قتل کر دیا جائے اور کوئی پرسانِ حال نہ ہو تو اسطرح کے واقعات نہ صرف ملکی وقار کے منافی ہیں بلکہ معاشی مفادات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
ان سب قباحتوں کے سدِباب اور دھرتی ماتا سے وفا کا تقاضا یہ ہے کہ پری پول ریگینگ جس کا بیرونی دنیا مذاق اڑا رہی ہے اور وراثتی سیاست کی بجاہے پوری دیانتداری سے فیئر الیکشن کے نتیجے میں صاحب کردار منتخب اکثریتی نمائندوں کو حکومت سازی کا موقع دیا جائے وگرنہ بگڑے ہوئے کھیل کو سنبھالنا کسی کے بس کا روگ نہیں اور یہی پاکستان اور اسلام دشمن قوتوں کی خواہش ہے ۔ اللہ پاک محبِ وطن پاکستانیوں کو اس توفیق سے نوازے کہ وہ مٹی کی محبت کا قرض بطریقِ احسن چکا سکیں ۔ آمین ثمہ آمین ۔