انتہائی محترم و معزز قارئین اکرام گزشتہ چار دہائیوں سے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ ،کینیڈا ،آسٹریلیا ،جرمنی ،یورپی یونین اور بالخصوص انگلینڈ کے نظامِ حکومت کو دیکھنے اور پرکھنے سے جو کھچ سیکھا ہے اس کے چھوٹے چھو ٹے قابلِ عمل پلس پوائنٹس کو وقتاً فوقتاً اس غرض اور مقصد سے احاطہ تحریر میں لاتا رہا ہوں کہ اپنے حصے کا چراغ جلا سکوں اور آج کی یہ کوشش بھی اسی کا تسلسل ہے ۔
یوں تو برطانیہ آمد کے بعد ہر ذی شعور کا جو پہلا تجربہ اور مشا ہدہ ہوتا ہے وہ یہاں کا ایک صاف ستھرا اور مکمل غیر جانبدارانہ حق رائے دہی ، جمہوری نظامِ حکومت اور فلاحِ انسانیت کا طرزِ عمل ہے جسے روز مرہ کی بنیادوں پر محسوس کیے جانے سے لاشعوری طور پر انسانی ذہن میں نکھار اور پختگی آتی رہتی ہے اور سسٹم کو اگر زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملے تو بندہ اصول پسندی کا معترف ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا ۔ برطانیہ میں مختلف سطحوں پرانتخابی عمل تقریباً ہر سال کبھی پیرش کونسل کبھی لوکل گورنمنٹ یا کونٹی کونسل اور پھر جنرل الیکشن کا عمل جاری و ساری رہتا ہے اور ان تمام مراحل پہ الیکشن ایجنٹس اور پریزائڈنگ آفیسرز کے دستخط شدہ فارمز پینتالیس 45 کو ہی الیکشن نتائج کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور مجتمع نتائج نناوے پوائنٹ نو فیصد 99.9 % اس کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔
ممکن ہے کہ پانچ دس ووٹ کسی جائز اعتراض کی بنیاد پر کینسل ہو جائیں مگر اس سے زیادہ کا اتفاق کم ہی ہوتا ہے اور قوم کی تربیت اس انداز سے کہ امیدواران کے ظرف کی داد دینی پڑتی ہے ، 1996ء میں راقم کو پہلی بار بحیثیت امیدوار کونسلر لوکل گورنمنٹ فارم پینتالیس 45 کی اہمیت کا اسوقت احساس ہوا جب میرے مدِ مقابل کنزرویٹو پارٹی کے برٹش آرمی کے ریٹائرڈ کرنل صاحب نے الیکشن رزلٹ کے اعلان سے پہلے ہی مجھے مبارکباد دی اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا جو میرے لیے حیران کن اور ایک نئی بات تھی اس کے بعد الحمداللہ چھ بار کے مسلسل ذاتی اور متعدد بار کے عملی مشاہدات اور تجربات نے سسٹم پہ یقینِ محکم کو مزید تقویت بخشی ۔
ان تمہیدی سطور کا مقصد اور مدعہ یہ ہے کہ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے پاکستان اسٹیبلشمنٹ کے تمام اداروں بشمول ملکی دولت کی لوٹ مار کے ماہرین سیاستدانوں نے میڈیا کے استعمال اور مسلسل جھوٹ اور منافقانہ رویوں سے شعور کو بے شعوری میں تبدیل کیے جانے میں ناکامی کے اسباب کو فارم پینتالیس 45 کے چھپانے یا تاخیری حربوں سے پردہ داری نہیں ہو سکے گی کہ اب یہ معاملہ ” خیر اور شر ” کا ہے پاکستانی باشعور عوام نے آٹھ فروری کو اپنا آزادانہ فیصلہ اللہ پاک کے حضور روبرو ہو کر سنا دیا ہے اب9فروری اور اس کے بعد کے سارے حربے9مئی کے مینجڈ ڈرامے کا روپ دھار لیں گے جو وطنِ عزیز پاکستان کی بقاء کے لیے خطرہ ہیں اور اس عمل کے نتیجے میں رونما ہونے والی صورت حال کے پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں نے نقشے بھی تیار کروا لیے ہوئے ہیں ۔
ان کا خیال ہے کہ 1971ء کے کامیاب تجربے کو انہیں کرداروں کی پشت پناہی کر کے اور عوامی قوت کے آگے بند باندھ کر اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کا اس سے بہتر موقع شاید پھر نہ ملے ۔ اس لیے تمام اداروں سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنی دلی نفرتیں، منافرتیں ،کدورتوں، حسد ،بغض، کینہ اور منافقت سے بالا تر ہو کر پاکستان کی خاطر عوامی مینڈیٹ کا احترام کیاجائے اورانڈیپنڈینٹ گروپ کی توڑ پھوڑ پہ وقت پیسہ اور ناجائز اختیارات کے استعمال سے بدنامی اور مزید بدنامی و جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا کہ بین الاقوامی میڈیا گھٹیا حربوں پہ مسلسل تبصروں اور تجزیات سے اقوام عالم کو آگاہ رکھے ہوئے ہے۔
اب وقتِ توبہ ہے اس پہ توجہ فرمائیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ انشا اللہ فتح مکہ کے سنہری اصولوں پہ عمل پیراء ہوتے ہوئے باوقار اقوام میں اپنا شمار کروا سکیں گے ۔ اللہ پاک اس نازک مرحلے پہ تمام اداروں کو انا سے ہٹ کر درست فیصلے اور حق بہ حقدار رسید کی توفیق سے نوازے ۔ آمین ثم آمین۔