واقعاتی شواہد۔۔۔۔۔۔(Circumstantial Evidence)

انتہائی معزز و محترم قارئین اکرام میں اس بات سے پورے طور پر باخبر ہوں کہ ہر ملک کے باشعور شہری اپنے اپنے ممالک کے نظامِ عدل سے اگر پورے طور پہ نہ سہی تو کم از کم اس کے نمایاں خد و خال سے تھوڑی بہت واقفیت اور شناسائی کی سوجھ بوجھ ضرور رکھتے ہیں اور یہی سوجھ بوجھ ملکی اور بین الاقوامی لیول پہ احترامِ معاشرہ کا باعث بنتی ہے جس سے قومی ریٹنگ کے معیار بھی تعین ہوتے ہیں۔

قانون کے ایک ادنیٰ سے طالبعلم کی حیثیت سے میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں اپنے آپ کو پورے طور پہ حق بجانب سمجھتا ہوں کہ اس نظام کے چلانے کہ ذمہ داران کو انتہائی صاحبِ کردار و گفتار ، معاشرتی موشگافیوں سے باخبر اور قانون سے کما حقہ واقفیت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ باجرات اور کسی کی خوشنودی یا دبائو اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد سے بالاتر ہو کر مکمل دیانتداری سے قیامِ عدل و انصاف اور بد عنوانی کے سدِ باب کے لیے میرٹ پہ فیصلے صادر کرنے کی سوچ اور صلاحیت کا مالک ہونا چاہیے تاکہ ہر خاص و عام ، امیر و غریب ، چھوٹا اور بڑا یہ تحفظ محسوس کر سکے کہ ان کے ہاں حق بہ حقدار رسید کا نظام عملی طور پر موجود و متحرک ہے ۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے باعث دنیا نے چونکہ ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر لی ہے اس لیے اب اقوامِ عالم میں اپنے باوقار مقام کے لیے بڑے محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور بد قسمتی سے سرے دست اسلامی ممالک میں سے پہلے پانچ دس یا بیس پچیس کیا بلکہ پہلے پچاس ممالک میں بھی کسی اسلامی ملک کا نام نہیں ہے اور گزشتہ سال کے بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستان کا نمبر ایک سو تیس 130 کے لگ بھگ تھا اور جب یہ سنتے تھے کہ اب وکیل کیا کرنا ہے جج ہی کر لیتے ہیں جو ہر طرح کی لاقانونیت اور کرپشن پہ پردہ ڈالنے اور مجرمان کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی بریت کے بہتر حربے جانتے ہوئے انصاف براہے فروخت میں کوئی حیل و حجت محسوس نہیں کرتے تو ہر باوقار اور باغیرت پاکستانی کا سر ندامت سے جھک جاتا تھا۔

9فروری کے بعد حاصل شدہ نمبر کہاں جا کے رکتے ہیں ان پہ تبصرہ تو آمدہ سروے کے بعد ہی مناسب رہے گا مگر دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ آٹھ فروری 2024 کے پاکستانی انتخابات پہ غیر ملکی مبصرین یورپی یونین الجزیرہ ، بی بی سی ، سکائی نیوز ، سی این این اور متعدد دیگر ذرائع ابلاغ کی رپورٹس پری پول رگنگ کا دورانیہ پی ڈی ایم PDM کا دورِ اقتدار بشمول نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تمام اداروں کو بتا رہے ہیں جو بلآخر ایک غیر ملکی حکومت کے تھرڈ کلاس سیکرٹری کے کارندوں کے طور پہ یہ جانتے ہوئے بھی مصروفِ عمل ہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں اپنے ناپاک عزائم کے حصول کے بعد گلے میں پٹہ ڈال کر اپنے پوڈل کے طور پر عزت افزائی کرتیں ہیں اور اس قوم کو عزت و وقار کب نصیب ہو گا جس کے بیشتر سیاستدان حصولِ اقتدار کے لیے پوڈل پالیٹکس میں اپنی عزتِ نفس ، غیرت اور ضمیر تک کو دائو پہ لگا دیتے ہیں مگر پھر بھی اس ذاتِ باری تعالیٰ کی تدابیر اور فیصلوں پہ اثر انداز نہیں ہو سکتے جس کا نظارا چشمِ فلک نے آٹھ فروری کو کیا اور اس کا تمام تر کریڈٹ اس مردِ مجاہد عمران خان کو جاتا ہے جس نے سوئی ہوئی قوم کے شعور کو بیدار کر کے ایک ایسا خاموش انقلاب بھرپا کر دیا جس پہ دنیا آج بھی ورطہِ حیرت میں مبتلا ہے ۔ کہ جس فردِ واحد کو دیوار سے لگانے کے لیے اسے پابندِ سلاسل کیا گیا اس کا نام لینا جرم قرار دیا گیا اس کے جانثار ساتھیوں پہ ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پا ما ل کیا گیا خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کے گھٹیا حربے استعمال کیے گئے ضمیر فروشی کا رجحان رکھنے والوں سے پریس کانفرنسیں کروائی گئیں، مخلص ساتھیوں اور صفِ اول کی جماعتی لیڈرشپ کو پسِ دیوارِ زنداں قید و بند کی صوبتیں جھیلنے یا روپوش ہونے پہ مجبور کر دیاگیا۔

قومی دولت کی لوٹ مار میں ملوث پاکستان ڈیفالٹر موومنٹ PDM کے لوگوں کے کیسز معاف کروا کر کرپشن میں پچاس کروڑ کی حد تک رعایت اور قانون سازی کروائی گئی ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے الٹرا پارٹی الیکشن جس کی تمام بڑی پارٹیاں موردِ الزام ہیں میں سے صرف تحریکِ انصاف کو نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ نظام عدل سے متعلقہ کچھ لوگوں نے بھی اپنے اندر چھپے ہوئے حسد ،بغض ،نفرت ،منافرت اور کینے کے اظہار میں بھی کوئی کمی نہیں رہنے دی اور تین دنوں میں تین مختلف کیسز میں طویل سزائیں سنانے کے بعد بلے کے نشان پہ پابندی عائد کر کے یہ محسوس کر رہے تھے کہ ہم نے اپنے غیر ملکی آقائو ں کے احکام بجا لانے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کے ثبوت میں پارٹی کو مکمل طور پہ کچل دیا ہے مگر حیرت ہے اس پاکستانی قوم پہ جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ووٹ کا معاملہ میرا اور میرے خدا کا ہے ہم اسے ہی اِس عزت سے نوازیں گے جسے ہم اسکا حقدار سمجھتے ہیں جس کے متعلق غیر ملکی مبصرین کہتے ہیں کہ اگر ان ساری غیر قانونی اور غیر اخلاقی زیادتیوں اور پارٹی لیڈر کے پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود پارٹی ایک سو اکہتر 171 سیٹوں پہ واضح برتری لے رہی تھی تو اس کے لیڈر کی صرف ایک ہفتہ دس دن کی آزادانہ الیکشن کمپین سے بلا شبہ تحریکِ انصاف پچانوے فیصد 95 % سیٹوں کی حامل ہوتی اور یہی درج بالا ساری کی ساری علامتیں واقعاتی شواھدCircumstantial Evidence کے ذمرے میں آتی ہیں اور ان میں اگر Hearsay Evidence جنہیں عرفِ عام میں ” آوازِ خلق کو نقارہِ خدا سمجھو”جیسے ہیوی عوامی مینڈیٹ کے آگے بند باندھنا اور اِس گھٹیا پن میں ملوث تمام تر اداروں کی بد دیانتی نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟

سابق کمشنر چوہدری لیاقت علی چھٹہ صاحب کے حق گواہی کے بیان کے متعلق اگر پہونکوں کی یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ کمشنر کا انتخابی عمل میں کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا مگر کون یہ بات مانے گا کہ انتہائی اہم عہدے پہ فائز ایک ذمہ دار آفیسر اپنے ڈویژن کے حالات سے بے خبر کیسے رہ سکتا ہے اور پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ لیاقت علی صاحب نے دوسروں پہ بغیر ثبوت کے الزام لگایا ہے حالانکہ کمشنر صاحب نے تو بات کے ثبوت میں بڑا آسان حل بھی بتا دیا ہے کہ فارم پینتالیس Form 45 منگوا لیں جنہیں چھپانے کے لیے انٹر نیٹ سروس بند کی گئی ۔

ان کی کمپالیشن میں گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں اور اب تو ہفتوں کی تاخیر ہو رہی ہے اور ابھی تک مکمل رزلٹ کے نوٹیفیکیشن نہیں ہو پا رہے ۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ تمام صاحبان اقتدار بقائے ملک و ملت اور استحکام پاکستان کا سوچیں اور اقتدار اکثریتی پارٹی تحریک انصاف کا حق بنتا ہے اس لیے عوامی مینڈیٹ کے احترام میں انہیں ہی سونپیں تاکہ انتشار کی سیاست سے ہٹ کر ملک بہتری کی جانب گامزن ہو سکے اور الله نہ کرے کہ سینوں میں سمائے ہوئے حسد بغض کینہ نفرت و منافرت اور عدم برداشت سے ایک بار پھر 1971والے حالات نہ پیدا کئے جا ئیں کہ انہیں کرداروں کو مجتمع کر کے اسی کامیاب فارمولے کو آزمانے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ قوم ہوشیار باش ۔دعاگوہ ہوں کہ الله پاک وطنِ عزیز کا حامی و ناصر ہو، آمین ثمہ آمین ۔

Circumstantial Evidenceواقعاتی شواہد
Comments (0)
Add Comment