پت جھڑ گزر جانے کے بعد خون کو جما دینے والی سردی اپنے عروج پر تھی۔وہ ریسٹ ہاٶس کی کھڑکی کھولے باہر ہونے والی برف باری کا منظر دیکھ رہی تھی۔آج امی،بابا اور بھائی کو گزرے نو سال بیت چکے تھے۔ابھی جیسے کل کی ہی تو بات تھی جب وہ خوش و خرم اپنے والدین کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔مگر ایک حادثے نے اس کی سب خوشیوں کے چراغ گل کر دیئے۔ہوا کے تیز جھونکے نے اوطاق میں رکھا خوشیوں کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بجھا دیا۔بابا کے گزر جانے کے بعد ان کے دوست خاور صاحب نے ان کے بزنس کی دیکھ بھال شروع کر دی جب تک اس کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔ماں باپ اور بھائی کے بنا بیتے یہ نو سال اس کے لئے نو صدیوں کے برابر تھے۔کھڑکی کے باہر ہونے والی تیز برف باری کے ساتھ آنسو بھی اتنی ہی تیزی سے اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔وہ کافی دیر کھڑکی کھولے کھڑی برف باری کا نظارہ کرتی رہی کہ شاید برف کی ٹھنڈک سے اس کے وجود کو تسکین پہنچ سکے۔وہ ابھی تک اپنے زندہ رہنے کا جواز تلاش نہ کر سکی۔بس امیدیں ہی امیدیں تھی جو ابھی تک تشنہ پا تھیں۔وہ صرف پندرہ سال کی تھی جب امی بابا اور بھائی چند ماہ کے اندر ہی چل بسے۔اس کی ماں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہونے کے بعد زیادہ دیر جی نہ پائیں اور بھائی بچپن سے ہی تھیلیسیمیا جیسی بیماری میں مبتلا رہا جو اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی اور پھر بابا بھی ماں اور بھائی کے گزر جانے کے بعد ایک کار حادثے میں ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے۔ان کے گزر جانے کے بعد اسے چچا نے سنبھالا مگر چچی کے تیور دیکھنے کے لائق تھے۔وہ ہر وقت اس سے اکھڑی اکھڑی رہتی تھیں۔معلوم نہیں انہیں اس سے کس بات پہ خار تھی۔پھر ایک دن اس پہ وہ راز بھی فاش ہو گیا جب وہ ایم بی اے کا آخری پیپر دے کر گھر واپس لوٹی تو کمرے میں چچا اور چچی کسی بات پہ بحث کر رہے تھے۔
"تم ردا سے اب اپنے حصے کا مطالبہ کرو نا آخر تم نے اس کی نو سال تک پرورش کی ہے”اس نے چچی کو کہتے سنا
"اتنے سالوں سے جو اس کی پرورش کر رہا ہوں وہ اسی دن کے لئے ہی ہے مگر بس تھوڑا صبر کرو اب اس کی تمام فیکٹریاں ہماری ہی ہیں۔کل کو اسے اپنے گھر چلے جانا ہے تو کہاں یہ سب سنبھالتی پھرے گی۔ہم اس کے سسرال والوں سے کہہ دے گے کہ یہ سب کچھ ہمارا ہے۔بس اپنے بھائی کی بیٹی ہونے کی وجہ سے میں اس کی پرورش کرتا رہا ہوں”چچا نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
"پر اس کی شادی کریں گے کہاں؟ کیا اس کے لیے آپ نے کوئی لڑکا ڈھونڈ رکھا ہے؟”چچی کے لہجے میں تجسس تھا۔
"ہاں آپا فاطمہ کا بیٹا شرجیل ہے نا آپا نے اس کے لیے مجھ سے بات کی تھی”چچا نے اطمینان سے جواب دیا۔چچی تھوڑا گڑبڑا گئیں”اس شرابی سے آپ اس کی شادی کریں گے۔کیا وہ مان جائے گی”۔
"نو سال تک اس کی پرورش کی ہے۔ایسے نہیں مانے گی ویسے بھی بھائی جان نے ہمیشہ اپنے اور اپنے بچوں کے بارے سوچا،انہوں نے کئی بار حصہ مانگنے پہ سب کچھ چھیننے کی دھمکی دی۔ان کا بدلہ بھی تو پورا کرنا ہے۔ان کے جیتے جی نہ سہی ان کے مرنے کے بعد ہی سہی۔بھائی نے اتنی دولت صرف اپنی ایک بیٹی کے ہی نام کی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کا ایک بھائی میں بھی ہوں۔مگر جب ان کی بیٹی کسی شرابی سے روز روز مار کھائے گی تو میرا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا اور۔۔۔!چچا مزید کیا بول رہے تھے اس میں مزید کچھ سننے کی سکت باقی نہ رہی۔کیا چچا مجھے آج تک اسی دن کے لیے پال رہے تھے۔؟اپنا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے میری پرورش کی۔؟انہیں مجھ سے نہیں میری دولت سے محبت تھی۔کاش میں قوت سماعت سے محروم ہوتی،کاش بابا کے ساتھ میں بھی چلی جاتی،کاش میں دنیا پہ دھکے کھانے کے لیے زندہ نہ رہتی۔۔۔وہ اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بلکنے لگی۔کافی دیر تک روتے رہنے کے بعد جب وہ تھک گئی تو خود ہی منہ ہاتھ دھو کر کمرے سے باہر نکل آئی۔اس کی آنکھیں سوج چکی تھیں اور چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
"کیا بات ہے بیٹا تم رو رہی تھی؟”چچا نے پریشانی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
"میں ٹھیک ہوں چاچو بس سر درد ہے تو نیند آ گئی تھی اور سو گئی”
"مگر تم تو جیسے صدیوں کی بیمار لگ رہی ہو۔”چچا نے اس کے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں چاچو بس ایسے ہی۔۔”وہ مزید الجھنا نہیں چاہتی تھی۔اس لیے ان کی باتوں سامنا کیے بغیر کمرے سے باہر چلی گئی اور اپنی کار نکال کر سڑکوں پر بےمقصد پھرتی رہی۔
"میں آپ کو دیکھاٶں گی چاچو کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اتنا لالچ کے اپنے بھائی کی یتیم بیٹی سے سب کچھ چھیننے کی غرض سے اسی کی زندگی تباہ کرنے چلے ہیں۔معلوم نہیں اور کتنے انکشاف ہونا باقی ہیں۔کاش آپ میرے بابا کے بھائی ہی نہ ہوتے۔مجھے افسوس ہے کہ آپ میرے بابا کے بھائی ہیں.”وہ سوچوں کے سمندر میں غرق ڈرائیو کرتے کرتے نہ جانے کتنا آگے نکل آٸی تھی۔جب اسے شام کے بعد پھیلتی رات کی سیاہی کا احساس ہوا تو اس نے ٹرن پہ جا کر کار واپس گھر کی جانب موڑ دی۔ابھی اس نے چند گز کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ راستے میں اسے سر پہ چادر اوڑھے ایک خاتون کھڑی نظر آئی۔وہ چہرہ اسے کچھ شناسا لگی، جیسے وہ اس عورت کو جانتی ہو۔اس نے وہیں پر کار روکی اور اس عورت کو پہچاننے کی کوشش کی۔پھر کچھ یاد آتے ہی وہ اپنی کار اس کے قریب لے گئی”اگر میں غلط نہیں ہوں تو آپ ماسی زینب ہیں ناں؟”اس نے متجسس لہجے میں اس عورت کو مخاطب کیا تو اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
"آپ کون ہیں بی بی جی اور میرا نام کیسے جانتی ہیں۔۔۔؟”اس نے حیرانگی سے پوچھا۔
"میں ردا ہوں، بختیار احمد کی بیٹی جن کے پاس آپ نے کئی سال تک کام کیا ہے۔آپ نے شاید مجھے نہیں پہچانا مگر میں آپ کو جانتی ہوں۔بہت چھوٹی تھی جب آپ کو دیکھا تھا”اس نے اپنا تعارف کروایا۔
"عمر کا تقاضا ہے بیٹی بس بھول گئی ہوں اب سب کچھ”ماسی زینب نے بے اختیار کہا
"آپ کو کہاں جانا ہے؟ اگر کہیں تو میں آپ کو ڈراپ کر دیتی ہوں؟”اس نے انہیں آفر دی
"نہیں میری بچی تم کسی تکلف میں مت پڑو۔رات ہو رہی ہے ، بہتر ہے کہ تم گھر چلی جاٶ”ماسی زینب نے اسے ٹالنے کی کوشش کی مگر اس نے ان سنی کر دی اور کار کا دروازہ کھول دیا۔تو ماسی زینب کو مجبورا ہار ماننا پڑی اور اس کے ساتھ ہی کار میں بیٹھ گئی۔ردا ماسی زینب سے ان کا حال احوال پوچھنے لگی۔
"آج کافی عرصے کے بعد میں نے آپ کو دیکھا ہے شاید دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔اس حادثے کے بعد آپ ایسے گم ہو گئیں جیسے آپ کا ہم سے کبھی کوٸی واسطہ ہی نہیں رہا اتنے سال کہاں بیتائے آپ نے۔”
"میں یہ شہر چھوڑ گئی تھی میری بچی،شاید اس دنیا میں چور ہونا اتنا بڑا جرم نہیں جتنا کمزور اور غریب ہونا۔ہم کمزور انسان ہمیشہ ظلم اور بے انصافی کی بھینٹ چڑھتے ہیں”وہ دکھ سے بولیں۔
"کیا واقعی آپ نے چچی کی جیولری چوری کی تھی؟”اس نے سوالیہ نظروں سے ماسی زینب سے پوچھا۔
ماسی زینب نے اسے دیکھا اور کہا "میرے پرانے زخم مت کریدو میری بچی،تمہارے ماں باپ میرے مالک تھے۔اس الزام سے میری وفا داری داغدار ہو گئی۔اس واقعے کے بعد میرے پاس گواہی کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔میں نے کہا نا یہاں چور سے زیادہ غریب ہونا گناہ ہے، جرم ہے، جس کی سزا ضرور ملتی ہے۔!میں بھی اسی گناہ کی پاداش میں سزا کی حق دار ٹھہری”بولتے بولتے ان کی آواز بھرّا گئی تو ردا نے سڑک کے ایک طرف پارکنگ پہ کار روک دی۔ماسی زینب کا دکھ سنتے ہوئے اس کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
"مگر ایسا کیا تھا کہ چچا نے آپ پہ چوری کا الزام لگایا۔امی ہوتیں تو شاید آپ کی طرف داری ضرور کرتیں۔مگر بابا شاید اس بات کو سمجھ ہی نہ سکے”وہ بولی۔
"میں کچھ نہیں بتانا چاہتی بیٹا،میں نہیں چاہتی تمہارے بابا اور چاچو کے درمیان پھر سے کسی قسم کی دراڑیں پیدا ہوں۔بس جو وقت گزر گیا گزر گیا۔تم اب مجھے گھر چھوڑو اور خود بھی گھر جاٶ۔رات ہونے والی ہے۔کبھی وقت ملا تو شہیر اور تمہارے بابا سے ملنے ضرور آٶں گی”ماسی زینب نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
"ماسی زینب..!”ردا نے نم آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا تو ماسی زینب بھی اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی
"بابا اور شہیر بھائی مجھے چھوڑ کر جا چکے ہیں”وہ نم آنکھوں سے مسکرائی
"چھوڑ کر جا چکے؟مگر کہاں؟”وہ بولیں۔
"وہاں جہاں سے کوئی واپس نہیں آ سکتا۔جہاں امی بہت پہلے چلی گئ تھیں…”اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔