سویڈن میں قرآن سوزی کے واقعات، عوام میں شدیدغم و غصہ

اسٹاک ہوم (زبیر حسین) سویڈن میں ایک بار پھر یکے بعد دیگرے قرآن سوزی کے واقعات کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کا شدید ردِعمل، ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت استرام کورس کےانتہا پسند سربراہ راسمس پلودان نے ایک بار پھر سویڈن میں مسلمانوں کےجذبات مجروح کرکے اشتعال انگیزی پھیلانا شروع کردی۔استرام کورس ڈنمارک کی ایسی سیاسی جماعت ہے جو کہ نن یورپین مہاجرین مخالف سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے جبکہ اس سیاسی جماعت کا بانی راسمس پلودان خود ڈنمارک میں ایک مہاجر کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ پلودان ایک سویڈش نژاد کا بیٹا ہے جو کہ ہجرت کرکے ڈنمارک پہنچا اور وہیں راسمس پلودان بھی پیدا ہوا اور پرورش پائی، راسمس پلودان تعلیمی لحاظ سے وکالت کی ڈگری رکھتا ہے جبکہ یونیورسٹی آف کوپن ہیگن میں بطور لیکچرار کام بھی کرچکا ہے۔

سال 2018 میں جب اس نے سیاسی جماعت استرام کورس کی بنیاد ڈالی تو اس نے سستی شہرت کے لئے اسلام مخالف اقدامات کرنا شروع کردئے جن میں اسلام مخالف احتجاج اور قرآن سوزی کے واقعات نے دنیا بھر کی توجہ اس فردِ واحد پر مرکوز کردی۔ڈنمارک کے مقامی اخبار کے مطابق راسمس پلودان کو اگست 2021 میں ڈنمارک میں کمسن لڑکوں کے ساتھ نازیبا چیٹ کے لئے چارج کیا گیا تھا، اخبار کے مطابق پلودان نے اس الزام کی نفی نہیں کہ البتہ اس کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا کوئی غلط کام نہیں۔سال 2020 میں پلودان نے باقاعدہ سویڈن کی شہریت حاصل کی چونکہ والد سویڈش شہری تھا اس لئے اسے سویڈش شہریت دی گئی اور یوں اس نے سویڈن میں مسلم مخالف اقدامات کرنا شروع کردیئے۔ راسمس پلودان نے ہمیشہ مسلمانوں کے مذہبی تہواروں یا مقدس مہینوں میں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے لئے مسلم اکثریت والے علاقوں میں قرآن سوزی کی تاکہ وہ کم وقت میں دنیا بھر میں نام کما سکے۔

رواںماہ رمضان میں اس نے سویڈن کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں باقاعدہ طور پر پولیس کا اجازت نامہ حاصل کرکےقرآن مجید نذرِ آتش کئے، ماہ مقدس میں اس کے اس اقدام پر عوام میں غم و غصے کی لہر نے شدت اختیار کی اور یوں چند شہروں میں کچھ ہنگامی صورتحال دیکھنے کو ملی۔ گزشتہ چند دنوں سے سویڈن کے بڑے شہروں میں جہا ں جہاں قرآن سوزی کے واقعات ہوئے وہاں عوام اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جبکہ متعدد مقامات پر پولیس موبائلز اور مالمو شہر میں ایک بس بھی نذرِ آتش کی گئی۔ مسلمانوں کی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے جبکہ مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گاڑیاں جلانے اور پولیس پر تشدد کے واقعات میں ویڈیوز فوٹیجز میں کم عمر لڑکوں کو دیکھا گیا ہے جن کا تعلق نا تو کسی مذہبی جماعت سے ہے اور نا ہی مسلم کمیونٹی اس طرح کے اقدامات کو درست سمجھتی ہے۔

مقامی سویڈش اور دیگر قومیتوں کا اس حوالے سے ملا جلا رجحان ہے اور اس حوالے سے مختلف شہروں میں کچھ انوکھے واقعات بھی رونما ہوئے جن میں قابلِ ذکر ایک ایسا مرحلہ ہے جب سویڈن کے شہر یان شاپنگ میں پلودان نے قرآن نذرآتش کرنے سے قبل اسپیکر پر عوام کو اکسانا شروع کیا تو مقامی چرچ کے پادری فریڈرک ہولیرٹز نے احتجاجاًچرچ کی بیل بجانا شروع کردیں جس سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور شاید ان پر عوامی احتجاج میں مداخلت کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑے، سویڈن بھر کی مسلم کمیونٹی نے فادر فریڈرک ہولیرٹز کو ہیرو قرار دیا۔

واضح رہے کہ تاریخ میں ہٹلر کے ظلم کے خلاف بھی اسی طرح چرچ کی گھنٹیاں بطور احتجاج بجائی جاتیں تھیں۔ عام عوام کا مؤقف یہ بھی ہے کہ راسمس کو کیوںکر پولیس کی جانب سے اجازت نامے جاری کئے جاتے ہیں جس سےناصرف عوام میں غصے کی لہر کو ہوا دی جاتی بلکہ پولیس کی بھاری نفری اس مکروہ منصوبے کے تکمیل دینے پر لگائی جاتی ہے ، عوام کا کہنا ہے کہ اس قسم کے اقدامات پر پولیس کی نفری کو لگانا مالی نقصانات کا سبب بنتا ہے لہٰذا اس قسم کے اقدامات کو مکمل طور پر روکا جائے۔

Comments (0)
Add Comment