اگر ایسا ہے تو جمہوریت کہاں ہے؟

ویسے صاحبو!وطن عزیز میں گزشتہ ستر سالوں میں ظہور پذیر ہونے والے انہوکے معاملات، بیانیوں کے بعد یہ بھی کمال ہے کہ حالیہ سابقہ حکومت جسکے سربراہ اپنے آپ کو ”ظل سبحانی“کا درجہ از خود دے بیٹھے تھے حکومت سے آئین میں موجود نکات کے تحت متحدہ حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے ہاتھ دھو بیٹھے تو ، غیر ملکی سازش کابیانیہ لیکر میدان میں آگئے اور ان دو ماہ سے بھی کم عرصے میں انکے ہر عوامی جلسے میں نئے نئے بیانیوں نے جنم لیا، اندرونی اور بیرونی میر جعفر، میر صادقوں کا ذکر کرنے کے بعد وہ ”میری جان کو خطرہ ہے، مجھے قتل کرنے کی سازش ہورہی ہے‘ تک پہنچ چکے ہیں اس دوران وہ میرجعفر، میر صادق کسے کہتے رہے ہیں یہ بھی ایک معمہ ہے اور وہ اپنی بنائی ہوئی خود ساختہ ہر سازش کے متعلق کہتے ہیں ”مجھے کئی ماہ سے اسکا علم تھا “ وہ اپنے ہر جلسے میں پاکستان کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انکا ہر اقدام، ہر دعا، بد دعا نیکی کے فروغ کیلئے ہے۔

ہمارے سیاست دانوں کا یہ مسئلہ ہے کو وہ اپنے معاملات کو از خود اسمبلیوں میں بیٹھ کر یا باہمی ملاقتوں میں حل نہیں کرسکتے اور اعلی عدالتوں کو سہارہ لیتے ہیں ، حمائت میں فیصلہ آجائے تو بغلیں بجاتے ہیں، اور مخالفت میں فیصلہ آجائے تو معزز ججوں کی کردار کشی اپنے بیانیوں اور سوشل میڈ یا پر کرکے دنیا کو ہنسنے کا موقع دیتے ہیں تحریک انصاف نے حکومت سے علیحدگی کے بعد یہ تماشہ خوب رچایا ،نہ جج صاحبان بلکہ مقتدر حلقوں کے خلاف بھی پر وپگنڈہ کیا ، انکے آخری بیانیہ کہ انکی جان کو خطرہ ہے، انہیں خدا ناخواستہ قتل کیاجائے گا،جسکے علم بقول انکے کئی ماہ سے ہے۔ آفریں ہے حکومت پرکہ انہوں نے فوری طور 122ار ب کے مقروض ملک کے قومی خزانے پر بوجھ ڈال دیا اور سو سے زائد پولیس اہلکار ۔، 5 پویس کی گاڑیوں کے علاوہ عمران خان کی نجی رہائش گاہوں بنی گالہ ، اور زمان پارک پر سیکورٹی تعنیات کردی، اسکے علاوہ نجی سکیورٹی بھی موجود ہے۔ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے ، سیاست دان عوام کی نہیں بلکہ اپنی جان کو زیادہ قیمتی گردانتے ہیں، انکے جلسوں اور مظاہروں میں انکے چاہنے والے معصوم افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جنکے لواحقین کا بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

مقتدر حلقوں کر سر عام اسکے باجود موضوع بنایا گیا کہ آئی ایس پی آر نے کئی مرتبہ درخواست کی کہ ”ہمارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں اپنے جھگڑوں میں ہمیں موضو ع نہ بنائیں۔ مگر وہ سلسلہ تاحال جاری ہے عمران خان نے تنقید کرنے کی ذمہ داری سنبھا ل رکھی ہے جبکہ تحریک انصاف از خود بنے ہوئے،مقتدر حلقوں سے قریبی تعلقات رکھنے کے دعوے دار چوہدری فواد، اور شیخ رشید پیش گویوں کا محاذ سنبھال رکھے ہیں، شیخ رشید کی تو ”بے پرکیوں“ سے عوام بخوبی واقف ہیں کئی سالوں سے وہ اعلانات کرتے ہیں جنکا کوئی سر پیر نہیں ہوتا ماضی قریب میں بہ حیثیت وزیر داخلہ بہت زور شور سے اعلان کرتے رہے پریس کانفرنسوں میں کہ ”میری آئیندہ پریس کانفرنس سے قبل اسحاق ڈار ہم پاکستان لے آئینگے“۔بہر حال اسوقت وطن عزیز کی حالت خاص طور پر معاشی طور پر بے حد خراب ہے جو یقنی بات ہے گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں نہیں ہوئی بلکہ پی ٹی آئی حکومت کا چار سالہ دور ہے جس میں نہائت ہی خراب کارکردگی رہی، چار سال سے کم عرصے میں شائد چار وزراء خزانہ بنائے گئے، جنہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک ملک کو معاشی نقصاں پہنچایا، جن وزارتوں کے ذمہ ملک میں بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں انتظامات ، فرنس آئل ودیگر معاملات تھے انہوں نے اربوں روپے کا نقصان پہنچایا اورچلتے بنے، جس وزیر اعظم کو ملک میں موجود مہنگائی کی اطلاع انکی اہلیہ سے ملے اس وزیر اعظم سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔

جو ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کے منحرف ہوئے انکے خلاف جب پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق عدالت عالیہ کا آدھا فیصلہ آیا تو وہی عدالت پی ٹی آئی کے نزدیک ایک دم بہترین اور جمہوریت کی بقا ء کی علمبردار ہوگئی جو عدم اعتماد والی رات بارہ بجے قانون کی عمل درآمد کیلئے کھلی تھی اور سوشل میڈیا و تحریک انصاف کے بیانات کے ذریعے اسی عدالت کو اور معزز جج صاحبان کو سخت نتقید اور کردارکشی کانشانہ بنایاگیاتھا۔سیاست دانوں میٹھا میٹھا ہپ ہپ کی سوچ سے باہر آنا ضروری ہے جب ہی عدالتیں اپنا کردار ادا قانون کے مطابق ادا کرسکتی ہیں ورنہ جج صاحبان بھی انسان ہی ہیں گالی کسی کو اچھی نہیں لگتی، اسوقت ملک میں تحریک انصاف کے جلسوں کے ذریعے نوجوانوں کی لڑنے، مارنے کی تیاری کرائی جارہی ہے، جو ایک افسوسناک امر ہے، ملک میں انتخابات تو ہونے ہیں اسکی کیا ضمانت ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو حکومت نہ ملی تو وہ پھر دوسرے دن عمران خان سڑکوں کا رخ نہ کرینگے؟ اور یہ بات تو طے ہے کہ عوام ملک میں موجود سیاست دانوں کے بیانات کی وجہ تقسیم در تقسیم ہیں اسلئے مستقبل میں کوئی بھی حکومت کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بنے گی تو کیا پاکستان کا مستقبل بھی یہ ہی خداناخواستہ رہے گا جو آج ہے۔

گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے ضروریات زندگی پر سپسڈی نہ دینے کا معاہدہ تو کرلیا مگر سبسڈی دیتے رہے جس بناء پر بجلی پیٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائیں اور عوام کو تاثر دیا کہ ہم قیمتیں کنٹرول کئے ہوئے ہیں اب بقیہ قسطیں IMF نہیں دے گا جب تک گزشتہ حکومت کے کئے گئے وعدے کو پورا نہ کیاجائے چونکہ معاہدے حکومت سے ہوتے ہیں کسی فرد واحد سے نہیں، موجودہ اتحادی حکومت کو تحریک انصاف کے معاہدوں کی وجہ سے کڑوہ گھونٹ پینا ہوگا۔ تحریک انصاف کا پروگنڈہ ملک کی دیگر جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن سے بہت آگے ہے اسلئے اصل بات عوام تک مسلم لیگ یا اتحادی جماعتیں عوام میں اپنا بیانیہ پہنچانے میں قاصر ہی رہینگی اور مہنگائی معیشت کا تباہی کا سہراہ موجودہ اتحادی حکومت کو ہی جائے گا، جس سے آئندہ انتخابات میں خاص طور پر مسلم لیگ ن کو مشکلات پیش آئینگی،پی پی پی پہلے ہی بڑے صوبے پنجاب میں سرگرم نہیں تھی وہ اب مسلم لیگ ن کے کاندھوں پر بیٹھ کر پنجاب میں داخل ہوگی وہ سیاہ دن بھی آئے گا جب اتحادی حکومت کا ناکامی سہرہ پی پی پی مسلم لیگ ن کے سر باندھ دیگی۔ آصف علی ذرداری تو کا تو قول ہے کہ کوئی معاہدہ آسمانی صحیفہ نہیں ہوتا۔

مسلم لیگ ن کا تشہری شعبہ اسقدر ناکام ہے کہ وہ منحرف اراکین کے متعلق عدالت کے حالیہ فیصلے سے خوفزدہ نظر آرہی ہے، جبکہ اس فیصلہ کا اثر نہ ہی پنجاب اور نہ ہی مرکزی حکومت کو ہوگا۔ انہیں اکثیرت حاصل ہے مگر دو دن سے تحریک انصاف نے عوام کو اس فیصلے کو لیکر گمراہ کیا ہوا ہے اور یہ تاثر دیا جارہے ہے مرکز اور پنجاب میں دونوں حکومتیں گیں۔آئی ایس پی آر کو ان بیانات کا نوٹس لینا چاہئے جو فواد چوہدری، یا شیخ رشید دے رہے ہیں کہ حکومت کو کچھ دن دئے گئے ہیں، یہ دن کس نے دئے ہیں؟ اگر ان بیانات میں کوئی بھی سچائی ہے تو پھر جمہوریت کہاں ہے؟

Comments (0)
Add Comment