یہ بات تو گزشتہ کئی سالوں سے ہے کہ جب بھی بھارت میں کوئی کشمیر دشمن، پاکستان دشمن اقدام ہو، جب بھی دنیا میں چاہے وہ IMF سے مذاکرات ہوں، چاہئے پاکستان کی گرے لسٹ یا پابندیوں کے سلسلے میں کوئی مذاکرات ہوں، ہمارے ملک میں سڑکوں پرلوگوں کو لایا جاتا ہے پہلے یہ سہراء ایم کیوایم نے اٹھا رکھا تھا ، ہنگامے، بلوے، قتل ہوتے ہیں او ر دنیا و میڈیا میں سر فہرست پاکستان کے اندر کے واقعات ہوجاتے ہیں آج بھی بدقسمتی لانگ مارچ کی صورت میں بھارتی عدالت سے کشمیر کے حریت پسند رہنماء یاسین ملک کو سزا سنائے کے سلسلے میں جو کشمیری عوام، اور دنیا بھر میں خاص طور پاکستان کیلئے اہم دن ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 25 مئی کو ہم ایک مرتبہ پھر عالمی اداروں کا دروازہ پیٹتے اور عالمی اداروں کے بند کانوں میں کشمیر کی آواز پہنچانے، بھارت کے ظلم و ستم سے ایک مرتبہ پھر آگاہ کرنے کی تگ ودو کرتے ہم اپنے ملک کی سڑکوں پر ہی موجود اپنی ہی سیاسی جماعتوں کی کارستانیوں کا شکار ہیں۔
اس سلسلے میں یسین ملک کی اہلیہ اور انکی ننھی صاحبزادی کی جانب خصوصی طور عمران خان پر درخواست کی ہے 25تاریخ کو پاکستان میں غل غباڑہ نہ کریں مگر وہ عمران خان ہی کیا جو کسی چیز کو اپنی سوچ سے آگے دیکھے ؟ عمران خان زمانہ کرکٹ سے ہی اپنی طبع میں ایک ایسے فرد ہیں جو اپنے سوا کسی فرد یا ادارے کو احترام کے قابل نہیں سمجھتے اور نہ ہی سنتے ہیں نہ صرف عمرانخان بلکہ انکے ہمراہ تمام لوگ ہی اپنی ناک سے آگے نہیں سوچتے، جو انکی مخالفت کرے اسے ان کی جانب سے میر جعفر کا خطاب کسی کو بھی مل سکتا ہے۔انہوں نے جو زبان مریم نواز کے لئے استعمال کی ہے وہ صرف ان کی عادت ہے یا یہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے؟ میری رائے میں اس قسم کی گھٹیازبان کا استعمال ایک گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے وہ یہ زبان اپنے مخالفیں کو چڑانے اور غصہ دلانے اور اپنے سامنے مجمع کو ”چارج“ کرنے کیلئے اسطرح کی زبان استعمال کرتے ہیں لوگوں کا خیال تھا شہباز گل ودیگر ترجمان از خود گندی زبان استعمال کرتے ہیں مگر سابق وزیر اعظم عمرانخان کے تمام خطابات کو سنکر یقین ہے کہ شاباشی یہیں سے ملتی ہے۔ جب یہ آرٹیکل شائع ہوگا اسوقت تک ملک میں عزیز میں نہ جانے کیا کیا ہوچکا ہوگا۔
یسین ملک سے بھارتی عدالت نہ جانے کیا کرچکی ہوگی جو کچھ ہوگا وہ پاکستان اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کیلئے باعث شرم ہوگا ۔عمران خان کا کہنا ہے میں اسلام آباد میں پڑاؤ ڈالونگا، حکومت کا کہنا ہے ”تم ذرا آؤ تو اسلام آباد“ کسی جانب سے سمجھداری کا کوئی مظاہرہ نہیں،عمران خان کا کہنا ہے کوئی راستے میں آئیگا وہ نیست و نابود ہوجائے گا۔ حکومت کہتی ہے یہاں آؤ سیاست بھول جاؤ گے۔ نہ جانے ہم اپنی نسل کو کیا سکھا رہے ہیں عمران حکومت کی برطرفی کسی مارشل لاء کے ذریعے نہیں ہوئی بلکہ اس آئین کے تحت ہوئی ہے جس کے تحت ہماری اسمبلیاں ہیں، جہاں صرف نمبر گیم ہوتا ہے، اس نمبر گیم میں انکی مخالف جماعت کے اراکین ”لوٹا“نہیں بنے بلکہ تحریک انصاف کے اراکین لوٹا بنے ، جنہیں تحریک انصاف نے لوٹا ہونے کا خطاب دیا ہے انکا بیانیہ ہے کہ ہم تحریک انصاف حکومت کی لوٹ مار سے تنگ آگئے تھے، بد انتظامی وہ لوٹ مار کا بازار گرم تھا ، وہیں سے گوگی گوجر کی کی بھی کہانی آئی،تحریک انصاف سے منحرف ہونے ہونے والے اراکین عمرانخان کے قریب ترین لوگ بھی تھے۔ اللہ تعالی پاکستان پر اور پاکستان کی عوام اپنا رحم کرے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ تحریک انصاف کے خیالات ، بیانات کی روشنی میں ملک کی املاک کی بھر پور حفاظت کرے چونکہ سنگل مین پارٹی کے سربراہ شیخ رشید ”خونی مارچ“ کا عندیہ دے رہے ہیں۔
ان خیالات اور 2014ء کو تحریک انصاف کے دھرنے کو سامنے رکھ کر حکومت حفاظتی اقدامات کیوں نہ کرے۔ معاشی صورتحال کی بناء جو گزشتہ چار سالوں اور تحریک انصاف چار سالوں میں چار وزراء خزانہ نے IMFسے معاہدے کئے اسکے بھنور میں پھنسی موجودہ حکومت لانگ مارچ کے اعلان کے بعد گونمگوں کی صورتحال سے دوچار تھی مگر اب لگتا ہے کہ اتحادی حکومت کے سربراہوں نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کرلیا ہے کہ ”تنگ آمد بنجدآمد “ اور آستین چڑھاکر میدان میں آگئی ہے۔ کچھ ٹی چینلز، کچھ عوام کے درد رکھنے والے افراد رکھنے والے ”دیوانے کے خواب“ کی طرح اس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں یعنی حکومت اور تحریک انصاف آپس میں بیٹھ کر معاملات حل کریں سڑکوں پر دھینگا مستی نہ کریں۔ مگر سابق وزیر اعظم عمرانخان کی سوچ دیکھتے ہوئے کہ انکے سامنے سب چور اور ڈاکو ہیں اور اب غیر ملکی ایجنٹ، میر جعفر، میر صادق بھی ہیں عمرانخان ان سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔
اس افسوناک صورتحال میں مہنگائی اور بے روزگاری کا شکار سخت مشکل ہیں لیڈران کو انکے مسائل کا خیا ل نہیں، خدانا خواستہ گنڈا پور، شیخ رشید،عمران خان کے بیانات اور وزارت داخلہ جوابی بیانات کچھ اچھا منظر پیش نہیں کررہے لیڈران تو گرفتاریوں سے بچنے کیلئے گھر کے صوفوں، اسٹورز میں چھپ کر اپنی جان بچارہے ہیں، بلکہ گولیاں مارنے کی ابتداء بھی کردیا ہے ایک معصوم پولیس کمال احمد کا کیا قصور تھا اسکے پانچ معصوم بچوں کیا ہوگا؟؟ جسے پی ٹی آئی کے ایک رہنماء نے چھاپے کے دوران گرفتاری سے بچنے کیلئے گولی ماردی، اور اب عمران خان، و پاکستان مسلم لیگ ق کے اسوقت سیاست میں ”تو کون میں خامخواہ“والے چوہدری پرویز الہی اس شہادت پر افسوس کے بجائے نہائت ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ گھر میں دیوار کود کر داخل ہورہا تھا گولی مارنے والے کو نہیں پتہ کہ وہ ڈاکو تھا یا پولیس والا ، جھوٹ کی انتہا ء کیا شہید کمال احمد تنہاء چھاپہ مارنے آیا تھا، یا نشانہ بنا کر گولی مارنے والا اندھا تھا کہ اس نے دیگر پولیس یا پولیس کی گاڑیوں کو نہیں دیکھا؟ پاکستان میں سیاست نے نہ صرف ڈھٹائی بلکہ بے پناہ جھوٹ نے بسیراء کرلیا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو، باجماعت بولو کہ وہ اسپر سچ کا گمان ہو۔ یہ پاکستان کے سیاسی مستقبل میں تباہ کن اضافہ ہے۔