کوہ نور پاکستان کی ملکیت ہے از غلام عباس ساغر

کوہ نور جنوبی بھارت کے علاقے گولکنڈہ سے ملا۔ کئی راجے مہاراجے نسل در نسل اس ہیرے کے وارث بنے۔

اسلامی تاریخ میں اس ہیرے کی موجودگی کا ذکر اس طرح سے ہے کہ ابراہیم لودھی کی والدہ بوا بیگم نے مغل شہزادے ہمایوں کونذرانے میں دیا اور اس طرح یہ ہیرا دہلی کے مغل بادشاہوں کے پاس رہا۔

بعض روایات ایسی بھی ہیں کہ شاید اس ہیرے کی نسبت حضرت سلیمانؓ سے ہے۔

1739ء میں نادر شاہ نے جب ہندوستان فتح کیا تو اسے اپنے ساتھ ایران لے گیا اور غالباً اسی نے اس ہیرے کا نام اس کی چمک دمک دیکھ کر کوہ نور رکھا۔ احمد شاہ ابدالی نادر شاہ کا جرنیل تھا ،نادر شاہ کے قتل کے بعد افغانستان کا علاقہ احمد شاہ ابدالی کےقبضہ میں آ گیا، یہ ہیرا بھی احمد شاہ ابدالی کے قبضہ میں رہا ،اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے شاہ تیمور اور اس کے بعد احمدشاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع والیٔ قندھار کے پاس رہا، جب اس کے مخالفین نے اسے تخت سے معزول کر دیا تو وہ بھاگ کرہندوستان آیا تو یہ ہیرا اس کے ساتھ تھا۔

یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسے پناہ دی اور کھوئی ہوئی حکومت کی بحالی کا وعدہ کیااس دوران مہاراجا کو کوہ نور ہیرے کے بارے علم ہوا۔ رنجیت سنگھ نے یہ ہیرا شاہ شجاع سے طلب کیا مگر شاہ نے جواب دیا کہ اس ہیرے کو قرض کے عوض کابل کے تاجروں کے پاس بطور رہن رکھوا چکا ہے، اس پر مہاراجا غضب ناک ہو گیا، اس نے شاہ شجاع کےخاندان کو اندرون لاہور مبارک حویلی میں سخت پہرے میں رکھا (گرمی کا موسم تھا مئی کے آخری ایام تھے) ان کا کھانا پینا بندکروا دیا ،بھوک اور پیاس سے معصوم بچوں کا رورو کر برا حال ہو گیا ،تین دن کی ناقابل برداشت ذلت اور سختیوں سے تنگ آ کر شاہ شجاع نے ہیرا رنجیت سنگھ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اور شرط عائد کی کہ وہ کوہ نور ہیرا خود مہاراجا کے حوالے کرے گا۔

یہ سن کر مہاراجا بہت خوش ہوا اس نے خود جا کر معزول بادشاہ سے ملاقات کی اور وہ ہیرا حاصل کر لیا۔ رنجیت سنگھ نے پوچھا:- ’’اس کی قیمت کیا ہوگی؟ شاہ شجاع نے جواب دیا :- “ طاقت! جس کے ذریعے ہر بادشاہ نے اسے حاصل کیا ،میرے آبا و اجداد نےاسے حاصل کیا اور اب مجھ سے آپ طاقت کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں ،کل کوئی اور طاقت کے ذریعے آپ سے حاصل کر لے گا“۔ یہ ہیرا مہاراجا رنجیت سنگھ کی خلعت کی زینت بنا رہا۔ 1839ء میں مہاراجا کا انتقال ہو گیا اس کے بعد خالصہ دربار سازشوں کا گڑھ بن گیا سکھ قوم آپس میں ٹکراتی رہی اور کمزور ہوتی گئی۔

1846ء میں سکھ انگریز جنگ میں سکھوں کو شکست ہوئی یہ ہیرا بھی برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا۔سکھ حکمران مہاراجا دلیپ سنگھ سے یہ ہیرا برطانیہ کے ہاتھ لگا اور یہ ہیرا سر لارنس گورنر پنجاب کے پاس موجود رہا اسے ایک حکم ملا کہ خفیہ طور پر یہ ہیرا لندن بھیجا جائے اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ لندن میں اس ہیرے کوتراشنے کے بعد تاج برطانیہ کی زینت بنایا گیا۔ اب تاج برطانیہ کی زینت ہے۔ اس کی عظمت چمک دمک کی بنا پر اکثر چیزوں وغیرہ کانام کوہ نور رکھ لیتے ہیں۔

2016 میں لارڈ دیسائی نے کہا کہ ‘چونکہ راجہ (رنجیت سنگھ) کی سلطنت کا وہ حصہ، جو اب پاکستان کے شہر لاہور میں موجودہے، وہاں رنجیت سنگھ میوزیم واقع ہے، اس لیے یہ ہیرا وہیں واپس جانا چا ہئے جہاں پنجاب سلطنت موجود تھی اور اُس وقت ان کا تخت لاہور میں تھا، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یہ کسی کی ملکیت ہے تو وہ پاکستان ہے۔

Comments (0)
Add Comment