توہین مذہب کے واقعات کا بہترین ردعمل

کچھ اسلام دشمن عناصر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کہ اپنی مذموم حرکتوں کی وجہ سے اہل اسلام کی دل آزاری کریں اور جب وہ کوئی شیطانی کام کریں تو اس پر مسلم بھڑک کر اپنارد عمل دیں، جس کا وہ مزا لیں۔ ایسے لوگ خدا اور رسول اللہ کے دشمن ہوتے ہیں اور انہیں وہ ایذا پہنچانے کی کام کرتے ہیں۔ سویڈن میں بھی ایک بدبخت اور ملعون کی جانب قرآن سوزی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ یہ متعصب اور شیطان صفت سویڈش نڑاد ڈینش نام نہاد سیاست دان محض اپنی شہرت اور اسلام دشمنی میں سویڈش قانون کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کررہا ہے۔ مقصد اس کا یہی ہے کہ وہ سویڈن اور یورپ کے عام عوام کو یہ بتائے کہ دیکھیں میں تو آزادی رائے کے قانون کے تحت باقاعدہ عدالت اور پولیس سے اجازت لے کر اپنی رائے کا اظہار کررہا ہوان لیکن مسلمان شدت پسند اور آزاری رائے کا احترام نہیں کرتے اور یہ مجھے پتھر مارتے ہیں اور قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ مسلمانوں میں برداشت اور مخالف نظریہ یا آزاری رائے کا تصور نہیں۔ اگر وہ سویڈن کے قانون کا احترام نہیں کرتے تو انہیں یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ سویڈش پولیس کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ وہ شخص قانون کے تحت اپنا عمل کررہا ہے اس لئے ہم اسے روک نہیں سکتے بلکہ اسے تحفظ فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس صورت میں سویڈن میں رہنے والے مسلمان مشکل کا شکار تھے کہ کیا کریں۔ قرآن اور اسلام کی توہین وہ برداشت کر نہیں سکتے اور نہ اسے طاقت سے روک سکتے ہیں تو پھر کریں تو کیا کریں؟

چند سال جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو خاکسار نے انہی تحریر و تقریر اور کالموں کے توسط سے یہ پیغام دیا کہ ایسے اسلام دشمن عناصر یہ سب جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ ان کا مقصد اہل اسلام کے جذبات سے کھیلنااور انہیں زچ کرتے ہوئے تعصب اور مذہبی منافرت کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ وہ آزادی رائے کی آڑ میں ایسی مذموم حرکتیں کرکے شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا حل پر تشدد رد عمل نہیں کیونکہ اس سے ان واقعات کی بہت زیادہ تشہیر ہوگی جو اس شخص کا مقصد ہے اور دوسرا یہ خود ہمارے لئے اچھا نہیں ہے۔ ہم ایک جمہوری معاشرے اور قانون کی حکمرانی کے عہد میں رہ رہے ہیں اور ہمیں اس قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنا ردعمل دینا چاہیے اس کے لئے بہترین حکمت عملی خود قرآن حکیم نے سورہ نساء کی آیت 140 میں میں دی ہے کہ اور بیشک اللہ نے تم پر کتاب میں یہ حکم نازل فرمایا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اْڑایا جا رہا ہے تو تم ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ انکار اور تمسخر کو چھوڑ کرکسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔ بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے۔

خاکسار نے بارہا اس بارے میں لکھا کہ جہاں وہ بدبخت قرآن سوزی جیسا شیطانی کام کررہا ہو ہمیں وہاں نہیں جانا چاہیے اور نہ وہ کوئی ردعمل دینا چاہیے بلکہ قرآن حکیم کے اس حکم کے مطابق اپنے آپ کو اس سے دور رکھیں۔ مقام شکر ہے کہ اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے اور سویڈن میں اہل اسلام نے یہی حکمت عملی اختیار کی ہے۔اس بہترین ردعمل کی دو مثالیں حالیہ دنوں میں دیکھنے کو ملیں۔ پہلی مثال سٹاک ہوم کے علاقہ حسبی کی ہے۔ جب اس بد بخت نے حسبی کے علاقہ میں قرآن سوزی کا اعلان کیا تو حسبی کے علاقہ میں اضطراب پھیل گیا۔ اس علاقہ میں تارکین وطن آباد ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ حسبی سکول کے طلبہ کی جانب سے بھی ردعمل متوقع تھا کیونکہ ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ اس صورت حال میں سکول کی انتظامیہ نے والدین سے رابطہ کیا۔ سکول کے مسلمان اساتذہ سے بھی مشورہ کیا گیا۔ پولیس بھی متحرک تھی اور امکان یہی تھا کہ یہاں شدید ردعمل ہوگا کیونکہ چند سال قبل اس علاقہ میں فسادات بھی ہوئے تھے اور بہت سی گاڑیوں کو جلادیا گیا تھا۔ ان تمام صورت کو دیکھتے ہوئے سکول کے والدین اور انتظامیہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ مذکورہ شخص چاہتا ہے جب وہ قرآن سوزی کرے تو اس پر شدید ردعمل ہو اور اس کی خوب تشہیر ہو لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ سکول کے اساتذہ نے بچوں کو اسوہ حسنہ سے مثالیں پیش کیں اور یہ سمجھایا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ علاقہ کے کچھ لوگوں نے خطیر رقم اکٹھی کی اور عین اس وقت جب اس بدبخت نے قرآن سوزی کرنا تھی، نوجوانوں کے درمیان فٹ بال میچ منعقد کروایا۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جیتنے والی ٹیم کو بڑا انعام دیا جائے گا۔ فٹ بال گراونڈ کے ساتھ ہی والدین اور دیگر لوگوں کے باربی کیو اور کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بدبخت شخص اکیلا پی کھڑا رہا اور ادھر ادھر دیکھتا رہا لیکن اسے کوئی تماشائی نظر نہ آیا۔ وہ وہاں سے نامراد اور مایوس لوٹ گیا۔ سویڈش میڈیا اور پولیس نے حسبی کے مسلمانوں کی جانب سے اس مہذہب ردعمل کو بہت سراہا اور کہا کہ اس بدبخت کو یہ بہترین جواب ہے۔

دوسرا واقعہ سویڈن کے وسطی شہر اورے برو میں پیش آیا۔ وہاں بھی اس بدبخت نے قرآن سوزی کی اجازت لی لیکن مقررہ وقت پر وہاں پہنچا تو دیکھا تو حیران و پریشان رہ گیا کہ اسے دیکھنے کے لئے کوئی بھی نہیں آیا۔ نہ وہاں کوئی تماشائی تھا اور نہ ہی کوئی ردعمل دینے والا۔ وہ وہاں سے بھی مایوس لوٹ گیا۔ پولیس نے بھی اطمینان کا اظہار کیا کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ سویڈش شہر اورے برو کے باسیوں نے بھی حسبی کے لوگوں کی طرح اس شخص کو بالکل نظر انداز کیا۔ اس واقعہ کی بھی سویڈش میڈیا نے بہت تعریف کی۔ کسی کو نظر انداز کرنا بہترین ردعمل اور جواب ہوتا ہے اور یہی طرز عمل آئیندہ بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہی انداز مستقبل میں بھی اپنایا گیا تو یقین وہ شخص اپنی شیطانی روش چھوڑ دے گا کیونکہ اس کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ دنیا میں جہاں بھی ایسے واقعات ہوں، انہیں بالکل نظر انداز کریں ۔ ایسے واقعات کی ویڈیو، خبریں اور دیگر تفصیلات نہیں پھیلانی چاہیں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔

Comments (0)
Add Comment