کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش،یا انکے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے انکے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثرپیدا ہو یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو یا انکے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا، یہ سب توہین رسالت کامرتکب بنانے والے عوامل ہیں۔

اللہ تعالی سورہ الاحزاب میں فرماتے ہیں

بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ؐ کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اورانکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

اسی طرح سورہ توبہ میں ارشاد ہوا

رسول اللہؐ کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے کُل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا ، اول ارتداد، دوسرا قتل اورتیسرا حضور صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی۔ اور سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے ابن خطل کے ان دونوں باندیوں کے قتل کانبی صل اللہ علیہ وسلم نےحکم دیا تھا۔

پاکستان میں توہین رسالت پر مکمل ایک قانون موجود ہے اور عمران خان نے اسلامی ممالک کے پلیٹ فارم OICکے تحت UNOمیں بھی اسلامی فوبیا اور حرمت رسالت پر ایک قرارداد منظور کروائی۔

عالم دین مولانا ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے مطابق ”اگر بالفرض میں کہہ رہا ہوں، اگر ایسا بولا(یعنی گستاخی کی)یہ ثابت ہوجائے اس کے باوجود بھی کسی ایک سویلین اور انفرادی شخص کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ اسلام اجاز ت نہیں دیتا۔ اگر وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر قتل کرے گا، وہ قاتل تصور کیا جائے گا، اس کی سزا موت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرائل کرے اور شہادتوں سے جو سزا بنتی ہے وہ دے، یہ انفرادی شخص کو حق نہیں ہے، مگر یہ ایسی صورت بن گئی ہے کہ گویاایک انتہا پسندی ایک پورا نفسیاتی مرض بن گیاہے، جو بدقسمتی سے ہماری پوری قوم پر چھاتا چلاجا رہا ہے۔انہوں نے بے شمار لوگوں اور مذہبی عناصر کو لوگوں کو اشتعال دلانے کا ذمہ دار قرار دیا ۔

جبکہ باقی مکتب فکر اپنی مختلف رائے رکھتے ہیں۔

توہین رسالت اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہود اور کفار کو صرف اور صرف ڈر لگتا ہے تو مسلمانوں سے۔ وہ ہر کچھ عرصے بعد ایسے رویےاختیار کر کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا آج بھی مسلمان اپنے نبیؐ کے نام پر اکھٹے ہوتے ہیں یا نہیں۔

آج ہمیں اپنی طاقت پہچاننی ہوگی تاکہ کل ہم ایک ہو کر ان یہودی اور کفاری طاقتوں کا مقابلہ کر سکیں۔

Comments (1)
Add Comment
  • Ayesha

    100%