پاکستان میں صحافت تنزلی کا شکار،اور پر خطر کام

0

ترقی یافتہ ممالک ، یا وہ ممالک جو ہماری زبان میں صادق اور امین ہیں وہاں صحافت کو اعلیٰ درجہ دیاجاتا ہے،صحافی کا احترام تمام ادارے بہ احسن خوبی کرتے ہیں پاکستان میں بھی ایک زمانہ تھا جب نامور صحافی اور اس سے وابستہ لوگ نہائت ادب اور احترام سے جانے پہنچانے جاتے تھے، یہ دور 1970ء اور 1978ء کے درمیان ختم ہوگیا، جب 1970ء میں صحافیوں نے تحریک چلائی تو ملک چلانے والوں کو احساس ہوا کہ انہیں ’’کنٹرول‘‘ کرنا ضروری ہے، اسی طرح کی ایک تحریک 1978ء میں آزادی صحافت کے حوالے سے چلی جس میں کچھ اخبارات بند کئے گئے تھے ملک گیر تحریک کے نتیجے میں بے شمار صحافی گرفتار ہوئے انکی حمائت میں ملک میں طلباء، کسان، مزدور تنظیمیں شامل ہوئیں اور ملک کے طول و عرض سے آکر صحافیوں کی حمائت میں گرفتاریاں دیں، ضیاء مارشل لاء کا دور تھا، سزائیں بھی ہوئیں اورمارشل لاء کا طرہ امتیاز صحافیوں کو کوڑے بھی لگے۔

جیل کے اندر طویل بھوک ہڑتالیں بھی ہوئیں مگر مارشل لاء حکومت صحافیوں کو جھکا نہ سکی، ہاں! ملک کے کرتا دھرتا ئو ں نے اسکے بعد صحافیوں کے اتحاد پر حملہ کرکے انہیں حصے بخروں میں تقسیم کرنے کی سازش شروع کردی، جس پر نہ صرف مراعات کے دروازے کھولے گئے اور صحافیوں کی فہرست میں غیر صحافیوں کو’’گھس بیٹھیا‘‘ کردیا وہ پروان چڑھے اور آج تک صحافت کے نام پر اپنے من پسند لوگوں کو مراعات اور مادیت کے اس دور میں تمام حربے استعمال کئے جاتے ہیں، ان تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود جنہوں نے سچ لکھنا، سچ کہنا، اپنا نصب العین بنایاتھا وہ زندہ ہیں اللہ انکی عمریں دراز کرے۔ صحافتی رموز اور ذمہ داریوں سے نا آشنا ء لوگ سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بھی بن گئے، چونکہ سیاست دان ہمیشہ یہ چاہتے ہیں سچ وہی ہے جو ٹوپی انکے سر پر بیٹھتی ہو، اور جو صحافی انکی سچ جھوٹ کو عوام تک لے جائے وہی صحافی ہے۔

سیاست دانوں کی کرسی کی چاہت بڑھتی گئی، عوام کے ووٹ سے حکومت بننے کے بجانے چور راستے سے حکومتوں میں آنے کا دور شروع ہوا ،جس صحافی نے اسکے خلاف آواز اٹھائی، اسے سخت تکالیف یہاں تک کہ جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، سابقہ ادوار میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جید صحافی کس قدر مالی کسمپرسی کا شکار رہے، کراچی کے پریس کلب میں دیکھا ہے کہ نامور صحافی کا جنازہ رکھا ہے دفنانے کے پیسے اسکے گھر نہیں اسکی برادری نے پریس کلب میں ممبران سے چندہ جمع کرکے کفن دفن کا اہتمام کیا، جبکہ مرحوم صحافی نہ جانے کتنے مالدار سیاست دانوں کی تشہیر کا سبب تھا ، اس نے جانے کتنی خبری شائع کرکے اسے اس مقام تک پہنچایا کہ وہ اپنے آپ کو عوامی لیڈر کہنے لگا۔ مگر مرحوم صحافی کی تدفین ساتھیوں کے چندے سے ہوئی۔

اسکے مقابلے میں آج مادیت کے دور میں کچھ صحافی نما لوگ کروڑوں میں کھیل رہے ہیں اللہ انکے رزق میں اگر وہ حلال ہے تو مزید ترقی دے آمین۔ میڈیا میں اگر جائزہ لیا جائے توالیکٹرونک میڈیا میں اسوقت نوے فیصد صحافی نام کے لوگ ہیں۔ ٹاک شو جنکا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا ما سوائے اسکے کس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے؟ اسطرح کے پروگراموں کی پشت پر سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں،الیکٹرونک چینلز گروہ میں تقسیم ہیں ایک چینل پر سب اچھا ہوتا ہے دوسرے پر لگتا ہے ہم تباہ ہونے جارہے ہیں۔رہا سوال پرنٹ میڈیا کا جو الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ مستنعد ہے، اس میں لکھا ہوا ایک ایک لفظ ریکارڈ ہوتا جو کئی سال بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے یا اسکا ریفرنس دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر چند منٹوں کا کھیل ہوتا ہے لوگ بھول جاتے ہیں، ملک میں مستند مشہور اخباراتجنکا اجراء کسی نظریے کے تحت ہوا، حکومتوں کی جانب سے انکی ہمنوائی نہ کرنے پر اشتہارات کی بندش کا سامنا کرتے ہیں اور ادارے کے ملازمین اپنی تنخواہوں سے محروم ہوجاتے ہیں مشہور اخبارت کو چلانا ایک مشکل کام ہے، گزشتہ حکومت کے وزیر اطلاعات کی پالیسوں نے پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ نیوز چینلز کو بھی اس بات پر مجبور کیا کہ وہ سیاسی خبروں کو چھوڑیں صرف تفریح خبروں پر توجہ دیں، یہ صحافت اور آزادی اظہار پر قدغن کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا ۔

مضامین نگار، کالم نگاروں کی تربیت دن بدن ختم ہوتی جارہی ہے، چونکہ مالی مشکلات کی وجہ سے نامور اخبارات اپنے صفحات کم کررہے ہیں اس صورتحال میں نئے لکھنے والے کہاں جائیں؟حکومیتں کہتی ہیں سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، پھر utube پر پابندی بھی لگاتے ہیں، جو کسی حد تک اسلئے درست ہے وہاں بھی نہ تجربہ کار ناقص معلومات لئے اپنی اپنی ہانکتے ہیں۔ایماندرآنہ صحافت ،بے لاگ اور غیرجانبدار لکھاری نہ کسی حکومت کو پسند ہیں، نہ سیاست دانوں کو چاہے وہ حز ب اختلاف میں ہوں اور بد قسمتی ملک کے اہم اداروں کو ، اگر ایماندار صحافت کرنے والوں کو سچی بات بتاتی جائے تو یقینا کوئی پاکستان کے خلاف نہیں۔ پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ گذشتہ سال ایک لانگ مارچ کی کوریج کرتے ہوئے شہید ہونے والی خاتون صحافی سمیت ملک بھر میں 6صحافی جان سے گئے۔ خیال رہے کہ پچھلے برس دنیا بھر میں 65 صحافی مارے گئے جبکہ 2021 میں یہ تعداد 55 تھی۔

سالِ گذشتہ پاکستانی صحافت کے لئے مشکل ترین ثابت ہوا اور 2023ء بھی شعبہ صحافت کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں لارہا کیونکہ اکثر طاقتوراور بااثر لوگ سچ کی تاب لانے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔اطلاعات تک رسائی دینے کے دعویدار حکمران طبقات اپنے مفادات کے لئے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کوئی صحافی ان اندھیروں سے سچ کی کرن چرا کر عوام کے سامنے لاتا ہے تو اس کی لو سے بے نقاب ہونے والے چہرے اسے ہی ردائے تیرہ میں لپیٹنے میں دیر نہیں کرتے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صحافیوں کے قاتلوں کو تحفظ دینے والے بے شمار موجودہیں قتل کے بعد کسی تحقیق کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا، ارشد شریف کے قتل، موثر تحقیقات نظر نہیں آئی سیاست دانوں اور افواہ بازوں نے اپنی دکان چمکائی۔ گذشتہ روز پاکستان کے ایوانِ بالا میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے مطالبے پر صحافیوں کے ساتھ بیتے واقعات کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 4 برس کے دوران ملک بھر میں 42 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔

تفصیل کے مطابق پنجاب میں 15، سندھ میں 11، خیبرپختونخوا میں 13 اور بلوچستان میں 3 صحافی قتل ہوئے جن کے ملزمان کے خلاف کی گئی کارروائی کے بارے میں رپورٹ کے مندرجات پر اراکین پارلیمنٹ معترض اور غیر مطمئن ہیں۔یہ تماشہ ہے کہ اراکین پارلمینٹ اعتراض کررہے ہیں تو قانون کون بنائیگا ۔ پاکستان میں آزادی صحافت کو قانونی طور پر پاکستان کے قانون کے ذریعے تحفظ حاصل ہے جیسا کہ اس کی آئینی ترامیم میں بیان کیا گیا ہے، جب کہ خود مختاری، قومی سالمیت اور اخلاقی اصولوں کو عام طور پر میڈیا کے مخصوص قانون، فریڈم آف انفارمیشن آرڈیننس 2002 اور ضابطہ اخلاق کے قوانین کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ پاکستانی میڈیا رائٹس واچ ڈاگ تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مارچ 2021 سے اپریل 2022 تک پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف کم از کم 86 حملے ہوئے۔رپورٹس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں زبردستی میں ڈرامائی اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں اغوا، قتل اور قانونی لڑائیاں ہوئیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!