وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے (اظہر عنایتی)
مسلم لیگ نون کے سابقہ ادوار کی کارکردگی کو مدنظر رکھا جائے تو کارکردگی کا معیار ججز، صحافی، میڈیا چینلز، بیوروکریسی اور جرنیلوں کو تحفے تحائف، رشوت، لالچ اور ڈرا دھمکا کر اپنے ساتھ ملانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ جھوٹے بیانیے بنا کر کبھی اپنے آپ کو ایٹم بم بنانے کے موجد، سی پیک کے بانی، ایشیا کا ٹائیگر، قائد اعظم ثانی، ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی اور اس گھنائونے کھیل میں میڈیا نے ان کی بی ٹیم ہونے کا ہمیشہ ثبوت فراہم کیا۔ حالیہ شہباز شریف کی سولہ مہینوں کی بد ترین حکومت کو مثالی حکومت ثابت کرنے کے لئے میڈیا کو 10 ارب روپوں سے نوازا گیا تو میڈیا نے بھی منہ لگے شوربے کو حلال کرنے کے لئے بدترین ملکی حالات کی بھی ایسے تشہیر کی کہ جیسے ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہیں ہوں، مہنگائی کا جن بوتل میں قید ہو گیا ہو، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی اوپر پرواز کر رہی ہو اور بجلی، پیٹرول عرب ممالک سے سستا مل رہا ہو، شہباز حکومت نے ترقی کا وہ سنگ میل عبور کر لیا ہو جو دوسری حکومتیں 74 برسوں میں نہ کر سکیں۔ اپنے سینے پر اتنے زیادہ تمغے سجائے ہوئے بھی ساری کی ساری جماعت بشمول کاغذی شیروں کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں کہ عوام کا کیسے سامنا کیا جائے۔ دو مہینوں کی لندن یاترا کے بعد مسلم لیگ نون اس قابل ہو سکی ہے کہ میاں نواز شریف کو بیساکھیوں کے سہارے پاکستان آنے پر راضی کر لیا ہے۔ یہ وہی امام انقلاب ہیں جو کئی بار جھوٹ بول کر پاؤں پکڑ کر اور معاہدے کر کے پاکستان سے جان بچا کر بھاگے کہ جیل کی سختیاں سہنا ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ لوگ واقعی بڑے اُستاد ہیں جو میاں صاحب کو ہر بار نیا لولی پاپ دے کر سمجھا بوجھا کے واپس پاکستان لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ میاں صاحب پاکستان کا آپ کے بنا چلنا محال ہے۔ ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ میاں صاحب نے جن جن افسران کو ہمیشہ پالا پوسا، انہوں نے میاں صاحب کے لئے وہ وہ کام بھی حل کر دیے جن کی نہ آئین اجازت دیتا ہے اور نہ قانون اور نہ ہی ان کاموں کی نظیر پوری دنیا میں کہیں ملتی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اگر نواز شریف کو گارڈ فادر لکھا تھا تو غلط نہیں لکھا تھا، باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن کا معاملہ ہو یا جنرل عاصم منیر کی تعیناتی کا، میاں صاحب کی منظوری کے بعد ہی یہ سب ممکن ہو سکا کہ پاکستان کا اگلا سپہ سالار کون ہو گا۔
پہلے پہلے غریب بکتے تھے
اب تو عزت مآب بکتے ہیں ۔ (حبیب جالب)
ججز، صحافی، بیوروکریٹس، جرنلز جو بھی لندن گئے سب نے میاں صاحب سے سراً و اعلانیہ ملاقاتیں کیں اور یقین دہانی کروائی کہ آپ کے بغیر ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ آپ پاکستان آنے کا فیصلہ کریں تو آپ کے لئے راہ ہموار کی جائے میڈیا جس پر نواز شریف کی تصویر اور تقریر پر پابندی تھی، میاں صاحب کے گُن گاتے نہیں تھکتا اور میاں صاحب کو پاکستان کا نجات دھندہ ثابت کرنے اور عمران خان کو پاکستان کا ڈاکو ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ میاں صاحب کو ڈرائی کلین کر کے واپس لانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں تاکہ میاں صاحب ایئرپورٹ سے اس قوم کے مسیحا کے روپ میں اُتریں اور عوام ان کا فقید المثال استقبال کرے اور وہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے مینار پاکستان پر نمودار ہوں۔ ایک جیتے ہوئے شخص کی طرح اپنی فتح کا اعلان کرکے جاتی عمرہ اپنی مسند پر براجمان ہوں اور ججز گھر جا کر اُن کی بیگناہی کا سرٹیفکیٹ دیں اور پھر الیکشن میں میاں صاحب کو جتوا کر ملک کا چوتھی بار وزیر اعظم منتخب کروایا جائے۔ اس سوچ اس سمجھ کے قربان جائیے شائد لوگ ابھی تک نواز شریف کے مزاج کو سمجھے نہیں، میاں نواز شریف کو جب تک 100 فیصد یقین نہ ہو جائے کہ اُن کو گرفتار نہیں کیا جائے گا وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ ایٹم بم کے موجد کے اتحاد ائیر ویز کے طیارے کے لینڈ ہونے سے پہلے اگر کسی نے پُھلجھڑی بھی چھوڑ دی کہ میاں صاحب کو گرفتار کر لیا جائے گا تو پھر اتحاد ائیر ویز کا طیارہ لندن سے پہلے راستے میں کہیں نہیں رُکے گا۔
میاں صاحب کو سب سے بہترین مشورہ اینکر نصرت جاوید نے دیا جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ شام کے بعد بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں پھر بھی بڑی پتے کی بات میاں صاحب سے کہہ گئے کہ میاں صاحب جو سبز باغ آپ کو دکھائے جا رہے ہیں، آنکھیں کھولیں یہ ایک سازش ہے۔ لندن میں رہیں کافی پینے جائیں، پارک گھومیں، کشتی رانی کریں یورپ کی سیر کریں، اپنی شاہانہ زندگی بسر کریں۔ پاکستان میں آپ کے پاس جیل جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
اقتدار کا نشہ دنیا کے سب نشوں سے زیادہ طاقت ور ہے۔ اقتدار کے نشے کا ذائقہ شہباز شریف صاحب بھی چکھ چکے ہیں اور انہوں نے اپنی سی وی (CV) بہتر بنانے کے لئے اپنے ہی بنائے ہوئے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور کمپنی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ مجھ سے اچھا خدمت گار آپ کو ملنا محال ہے۔ بات مشہور ہے کہ کسی لڑکی کی شادی ہوئی تو اس نے ماں سے پوچھا مجھے گھر بسانے کا گُر بتا دو تو ماں نے کہا ساری دنیا سے بگاڑ لینا لیکن اپنے خاوند سے نہ بگاڑنا اور اس کی ہر بات ماننا تو پھر خیر ہی خیر ہے۔ یہ بات شہباز شریف کی سمجھ میں اچھی طرح آ گئی ہے کہ طاقت بڑے بھائی کے پاس نہیں بڑے گھر کے پاس ہے۔ ان سے کسی صورت نہیں بگاڑنی۔ بڑے میاں صاحب کو ورغلاء کر پاکستان لانے کا سہرا شہباز شریف کے سر ہے، بقول سائرہ بانو کہ رشتے والوں کو چھوٹی بہن پسند آ گئی ہے۔ جس شخص کو مرد آہن بنا کر پیش کیا جاتا رہا، وہ اتنا بہادر ہے کہ بھائی کی حکومت ہونے کے باوجود ملک واپس نہیں آیا۔ اصل میں سرکس کے شیر کو شہباز شریف اور عیسٰی علیہ السلام سے زیادہ قاضی فائز عیسٰی کا انتظار تھا۔ یہی وہ سرمایا کاری ہے جس کا پھل وہ اقتدار سے دور رہ کر بھی کھا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب ہمیشہ اپنے ایمپائروں کے ساتھ ہی میچ کھیلتے ہیں، اگر میاں صاحب واپس آ کر گرفتار ہو گئے تو انہوں نے حالات کا مقابلہ تو کر نہیں سکنا کیونکہ جیل کی زندگی تو وہ ایک دن بھی برداشت نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ جیل جانے کے لئے واپس آ رہے ہیں وہ تو ایون فیلڈ سے نکل کر ایوان اقتدار کی راہ داریوں کے خوابوں کی تعبیر بُننے آ رہے ہیں۔ لیکن اگر قانون نے اپنا راستہ بنایا اور میاں صاحب کو پابند سلاسل ہونا پڑا جس کی اُمید پاکستان جیسے ملک میں کم ہی ہے، تو بڑے میاں صاحب ہر ایک شخص سے ضرور پوچھتے پھریں گے کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔