میرپورانٹرنیشنل ائرپورٹ ڈیمانڈ

0

انتہائی معزز و معترم قارئین کرام عمومی طور پر تو یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ مہذب اور تعلیم یافتہ اقوام اور ممالک کے نمائندہ سربراہان کی ہمیشہ سے پر خلوص کوششیں اور کاوشیں ہوتی ہیں کہ اپنے لوگوں کی ہر ممکن بہتری اور سہولیات کے لیے تمام تر ممکنہ وسائل کو بروئے کار لایا جاسکے ۔ مگر شومیے قسمت وطن عزیز میں گنگا ہمیشہ ہی سے الٹی بہہ رہی ہےجس کی پہلی مثال1971میں مملکتِ خدا داد پاکستان کو دو لخت کرنے سے سامنے آئی اور جس کا تسلسل تاحال نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس میں چوروں، لٹیروں، نااہل اور بددیانت لوگوں کی کبھی فارم 47 کے حوالے سے اور کبھی رشوت سفارش میرٹ کی پاما لی اور پینٹاگان کی ترجیحات کے پیش نظر وطن عزیز کو تباہی کے دھانے پہ لا کھڑے کیے جانے کا روز مرہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ اب انٹرنیشنل میڈیا اور ریسرچ ٹینک کھلے عام اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسوقت حکومت پاکستان کی عنانِ اقتدار کے 67فیصد لوگ ایوانِ صدر سے لیکر وزارتِ عظمی، کیبنٹ ممبران اور اسمبلی ارکان تک مختلف جرائم میں ملوث لوگ شریک کار ہیں اور مجھے انتہائی افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ اس سارے عمل کی وجہِ بدنامی بسلسلہ سہولت کاری اُس فوج کے حصے میں آرہی ہے جن کی جیپوں پہ پھول نچھاور ہوتے ایک زمانے نے دیکھے۔

جی ایچ کیو کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس کے سدِ باب پہ فوری توجہ دیے جانے کی اشد ضرورت ہے ۔ نہ صرف اسٹیبلشمنٹ بلکہ ہر شعبہِ زندگی میں چوروں، لٹیروں اور بے ضمیروں کی حکمرانی اور عملداری آئے روز ملک کو پیچھے دھکیل رہی ہے ۔ نارملی ہوتا تو یہ ہے کہ کسی بھی خطے علاقے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی شرط وہاں تک جدید ترین ذرائع آمد و رفت کے ساتھ ساتھ دیانتدار مخلص اور باصلاحیت قیادت کا ہونا ضروری ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں قائدِ اعظمؒ کی راحلت کے ساتھ ہی یہ عناصر ناپید ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً ملک بدحال اور قوم محرومیوں کا شکار ہوتی چلیگئی ۔ زیادہ دور جائے بغیر حصولِ مقصد کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے اور وہ نہر اپر جہلم کی تعمیر شروع ہونے سے پہلے انگریز جن کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد میں کیے جانے والے فیصلوں سے متعلق سو سال بعد تک کے معاملات اور نشیب و فراز پہ بھی غور و خوض کرتے ہیں نے سب سے پہلے ریلوے لائن بچھائی تاکہ تعمیر نہر کے سلسلے میں ہیوی مشینری اور دیگر اشیاہے ضرورت لانے جانے میں آسانی رہے اور آج بھی بیشتر ایسے لوگ زندہ ہیں جنہوں نے اس لائن پر گڈز ٹرینوں کو چلتے ہوئے بچشمِ خود دیکھا ہے ۔

مگر انگریز کے جاتے ہی منفی سوچ کے حامل لٹیروں نے ریلوے پٹڑی کے نام و نشان تک مٹا ڈالے اور آزاد کشمیر کے بے ضمیر حکمران اس پہ آواز تک نہ اٹھا سکے ۔ دوسری تو ابھی کل کی بات ہے کہ منگلا ڈیم کے آغاز سے پہلے جہلم سے براستہ دینہ منگلا تک نہر کی پٹڑی بچھائی گئی جسکا آج نام و نشان تک نہیں اور آزاد کشمیر کے ہوسِ اقتدار میں مبتلا حکمران اُف تک نہ کر سکے ۔ موازنے کی غرض سے اس بات کا ذکر خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ اسوقت دنیا بھر کا اونچا ترین ریلوے پل مقبوضہ کشمیر میں دریا ئے چناب پر واقع ہے اور تین سو چوبیس 324 میل لمبی ریلوے لائن اودھم پور، سری نگر، بارامولا، کشمیر ویلی کو جموں سے ملاتے ہوئے توی ریلوے لائن بھارت کے دیگر شہروں سے منسلک ہے جبکہ سری نگر میں انٹرنیشنل ائرپورٹ ، جموں میں ڈومیسٹک ائرپورٹ اور آونتی پور میں ائر فورس اور ملٹری ائر پورٹ موجود ہے ۔

یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ 1911میں  انٹرنیشنل ائر پورٹ میرپور کا معاملہ شروع ہونے پر لہڑی اور چند گرد و نواح کے مواضعات میں رقبہ تعدادی ساڑھے آٹھ ہزار کنال کی نشاندھی اور سروے مکمل ہونے کے باوجود مالکان سے عدمِ اعتراض کے سرٹیفکیٹ (N O C) کے معاملات تا حال حل طلب ہیں ۔ حالانکہ مفادِ عامہ کے سلسلے میں C P O Coumpulsary purchase orderکے تحت یہ چند ماہ کا کام ہے جس کے لیے چودہ سال سے زاہد کا عرصہ گنوایا جا چکا ہے ۔ پاکستان ائر پورٹ اتھارٹی/ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی عدم دلچسپی بھی بڑی حد تک اس لیے قابلِ مز مت ہے کہ کسی بھی قابلِ عمل پراجیکٹ میں رسمی قصے کہانیاں سنا کر باعث تاخیر بننا بھی ایک انتہائی غیر دانشمندان فعل ہے ۔

یہاں مجھے میرپور انٹرنیشنل ا ئرپورٹ ڈیمانڈ کمیٹی کے ممبران کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے انتظارِ بسیار کے بعد ایک ایسے معاملہ کو پھر سے اٹھایا ہے جو نہ صرف تجارتی عملداری میں منفعت کا باعث ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کے خاندانی روابط میں بآسانی ممدو و معاون بھی ہے ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے صاحب اختیار لوگوں کو درج ذیل مثبت نکات کو دیانتدارانہ اندازِ فکر سے سوچنا چاہیے کہ اسوقت ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش اڑھائی لاکھ کشمیری محنت کش بیرونِ ممالک مقیم ہیں جن میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ بشمول اعلیٰ پائے کے بزنس مین اور پروفیشنل صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں یہ ا ئر پورٹ نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پاکستانی کئی تحصیلوں اور اضلاح سوہاوہ ، دینہ ، جہلم ، کھاریاں اور گجرات تک بآسانی سروسز مہیا کر سکتا ہے جس سے نہ صرف بیرونِ ممالک مسافروں کی آمد و رفت میں آسانی بلکہ ان علاقہ جات میں انڈسٹریل زون میں بیرونِ ممالک تربیت یافتہ طبقہ کی بہتر سرمایہ کاری لانے میں بڑی حد تک حوصلہ افزائی کا موجب بھی ہو سکتا ہے جس کی بنیاد پہ یہ ا ئر پورٹ پاکستان کے دیگر تمام فضائی رابطوں سے زیادہ مصروف اور موثر ثابت ہو سکتا ہے ۔

جس کے سلسلے میں میرپور انٹرنیشنل ا ئر پورٹ ڈیمانڈ کمیٹی کی تا ئید میں اورسیز پاکستان کشمیر پیٹریاٹک گروپ کے ممبران بھی اس جائز اور قابل عمل منفعت بخش پراجیکٹ جس کے لیے ہزاروں اورسیز ورکرز کی دستخطی پٹیشن سفارتخانہ پاکستان میں پہلے ہی سے جمع کروائی جا چکی ہے اور اب مورخہ13 اپریل بروز اتوار بوقت پانچ بجے شام بمقام Nechells Pkwy, Nechells, Birmingham,B7 4PTمیں پہلی حسبِ ضابطہ کانفرنس انعقاد پذیر ہو رہی ہے، اس میں آپ سب سے مودبانہ گزارش ہے کہ اپنے صاحبِ علم و بصیرت دوست احباب کے ساتھ تشریف لا کر اراکین میرپور انٹرنیشنل ا ئرپورٹ ڈیمانڈ کمیٹی کے ممبران کو اپنی بہتر مثبت تجاویز سے نواز کر مشکور فرمائیں ۔اللہ حافظ
منتظر آمد ممبران و منتظمین ائر پورٹ ڈیمانڈ کمیٹی

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!
[hcaptcha]