پاکستانی سیاست میں آڈیوز اور ویڈیوز لیک کو منظر عام پر لانے کا سلسلہ ن لیگ نے شروع کیا تھا ۔ آڈیوز اور ویڈیوز کی ریکارڈنگ وہاں کی جاتی ہے جہاں اعتماد کا فقدان ہو۔ کوئی غلط کام کرنے کے بارے میں کہا جا رہا ہو یا پھر ایسا زبانی حکم نامہ صادر کیا جا رہا ہو جس سے آئین یا پھر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا جا رہا ہو ،سادہ لفظوں میں حلف نامہ کی خلاف ورزی کی جارہی ہو۔
مریم نواز بڑے فخر سے کہا کرتی تھیں ہمارے پاس بہت سی ویڈیوز ہیں وقت آنے پر لیک کی جائیں گی ،درحقیقت بلیک ملنگ کرنے کا پرانہ حربہ ہے ، ججوں اور دیگر سرکاری افسران کے خلاف ویڈیوز ریکارڈ کر کے رکھ لینا ، جب وہ شخصیت آپکی بات نہ مانے تو انکی ویڈیوز لیک کر دیا۔
پورے ملک میں شور مچا ہوا ہے وزیراعظم ہاؤس کی آڈیوز لیک ہونے کا۔محترمہ بینظیر بھٹو اور عمران خان نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی باتیں اور میٹنگز کی خفیہ ریکارڈنگ کی جاتی ہے ، مگر میڈیا اور دیگر نشریاتی اداروں نے اسکا کچھ خاص نوٹس نہیں لیا تھا۔
آخر کون ہے جو یہ ریکارڈنگ کرواتا ہے اور اسکے مقاصد کیا ہیں درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو وکٹ کے دونوں اطراف کھیلتے ہیں۔ جمہوری حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی پہلے دن سے کارروائی شروع ہو جاتی ہے صرف یہ جاننے کے لیے تمام جمہوری طاقتیں مل کر کہیں ہماری اجارہ داری ختم نہ کر دیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز کہنے کو جمہوری ملک ہے مگر جمہوریت کے پودے کو ہمیشہ بوٹوں سے ٹھوکریں لگی ہیں ،آج ایک بار پھر سیاستدانوں کو قابو میں رکھنے کے لیے آڈیوز اور ویڈیوز لیک کا گھناؤنا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ادارے جہاں ملک بدنامی کا باعث بن رہے وہیں پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
ملک کے چیف ایگزیکٹو کا دفتر محفوظ نہیں ہے تو کچھ بھی محفوظ نہیں ہے یہی پیغام دنیا سمجھا ہے۔
اس سے قبل بھی مختلف وقتوں آڈیوز اور ویڈیوز لیک کا سلسلہ ہوتا رہا ہے ۔ڈان لیک ، میمو گیٹ لیک اور جج صاحبان سے متعلق۔ نہ ہی مقتدر حلقوں اور عدلیہ نے اس پر کوئی نوٹس لیا، پوری دنیا میں شور مچا مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس لیک کا بھی وہی انجام ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے ۔ آخر کب ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی ہو گی۔