دبئی میں گلوبل اردو پوئٹری فیسٹیول کے زیراہتمام مناظمہ

0

مناظمہ کا اہتمام لیڈنگ ایج کے بنیا د گزار طارق فیضی نے دبئی میں کیا

ایسے مناظمہ کی مثال ایک سو سینتالیس برس قبل مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کے ہاں نظر آتی ہے، جاوید اختر

دبئی (طاہر منیر طاہر) اردو کے مشاعرے تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں، مگر نظم کا ایسا تاریخی مشاعرہ قریب ڈیڑھ سو سال بعد کرایا جارہا ہے۔ اس سے پہلے نظم کا مشاعرہ مولوی محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کے ذریعے پنجاب میں کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد نظم رفتہ رفتہ ہمارے مشاعروں سے غائب ہوگئی اور غزل کی مقبولیت کے آگے ہم اپنی سنجیدہ صنف سخن کو فراموش کرتے چلے گئے۔ دبئی میں جاری سہ روزہ گلوبل اردو پوئٹری فیسٹول میں جاوید اختر نے ان الفاظ میں اظہار خیال کیا۔

انہوں نے تینوں روز اس فیسٹول میں لگاتار شرکت کی اور اپنی غزل اور نظم سے بھی سننے والوں کو نوازا۔ گلوبل اردو پوئٹری فیسٹول گیارہ تا تیرہ نومبر دبئی کے کراس بارڈرز آرٹ گیلری میں منعقد کیا جانے والا سہہ روزہ جشن تھا، جس میں ہندوستان ، پاکستان اور دبئی کے شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر ہندوستان سے جاوید اختر، انس خان، خالد نسیم صدیقی، اسلم محمود، تصنیف حیدر کے ساتھ ساتھ معروف سنگر کابُکی کھنہ نے بھی شرکت کی، جبکہ پاکستان سے شرکت کرنے والی شخصیات میں خورشید رضوی، حمیدہ شاہین، انعام ندیم، ذوالفقار عادل، فیصل ہاشمی، شبیر حسن ، انجیل صحیفہ اور فاطمہ مہرو کے علاوہ مشہور گلوکار چاند اور سورج بھی شامل تھے۔

پہلے روز اصناف سخن نامی سیشن کے ساتھ اس پوئٹری فیسٹول کا آغاز ہوا۔ جہاں دہلی سے آئے ہوئے ادیب و شاعر انس خان نے نہ صرف اپنے دوہے سنائے بلکہ دوہے پر تفصیلی گفتگو بھی کی، انہوں نے کہا کہ دوہا ہماری تہذیبی وراثت ہے اور ہمیں اسے نہ صرف فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے بلکہ دوہے کے نئے شاعر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بعد نیرنگ خیال کی محفل کا انعقاد ہوا۔

نظم کی یہ محفل جسے مناظمہ بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے بے حد کامیاب رہی کہ توقع کے برخلاف سننے والوں نے تمام نظم گو شاعروں کو بڑی سنجیدگی اور دلچسپی کے ساتھ سنا اور داد و تحسین سے بھی نوازا۔ اس محفل میں وحید احمد، عنبرین صلاح الدین، عمار اقبال، ندیم بھابھہ، شعیب کیانی، انجیل صحیفہ اور فاطمہ مہرو نے اپنی نظمیں سنائیں۔ دوسرے روز نقش خیال نامی سیشن سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور اس میں نظم کے دو شاعروں شعیب کیانی اور تصنیف حیدر کو بتدریج ساحر لدھیانوی اور دانیال طریر کے نام سے منسوب اعزازات سے نوازا گیا۔

اسی کے ساتھ غزل کے شاعروں میں شبیر حسن کو عرفان صدیقی اور اسلم محمود کو نصیر ترابی سے منسوب انعامات سے نوازا گیا۔ یہ اعزازات منسوب کیے گئے مشہور ناموں کے اقربا کے ذریعے دلوائے گئے، ساحر لدھیانوی ایوارڈ جاوید اختر اور دانیال طریر ایوارڈ انجیل صحیفہ کے ذریعے دلوایا گیا، جبکہ عرفان صدیقی ایوارڈ ان کے بیٹے خالد عرفان اور نصیر ترابی ایوارڈ ان کے بیٹے راشد ترابی کے ذریعے دلوایا گیا۔ اس لحاظ سے اعزازات کی یہ تقریب اپنے لحاظ سے بالکل انوکھی اور نئی قرار دی گئی۔

اس کے بعد دام خیال نامی غزل کے مشاعرے کا آغاز ہوا۔ اس محفل میں غزل کے جن شاعروں نے شرکت کی، ان میں خورشید رضوی، حمیدہ شاہین، انعام ندیم، فیصل ہاشمی، شبیر حسن، ذوالفقار عادل اور تصنیف حیدر کے ساتھ ساتھ دبئی کے چار شاعر موجود تھے۔ غزل کی یہ محفل بے حد کامیاب رہی اور سامعین نے شاعروں کے کلام کو ہر لحاظ سے پسند کیا۔

بقول جاوید اختر یہ تقریب غزل کی ایک معیاری تقریب قرار دی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں ایسے شاعر شریک تھے، جو عام طور پر مشاعروں میں نظر نہیں آتے اور جن کا کلام صرف کتابوں اور رسائل کے ذریعے ہی ہم تک پہنچتا ہے۔ غزل کی اس محفل کے ساتھ دوسرے روز کی تقریبات کا اختتام ہوا۔ تیسرا دن خاص طور پر مضراب خیال یعنی موسیقی کی محفل کے لیے مخصوص تھا، جہاں چاند ، سورج اور کابکی کھنہ نے اپنی آوازوں میں مختلف غزلیں اور نظمیں گاکر تمام محفل کو اپنا گرویدہ کرلیا۔

کلام و آواز کے اس دور خوش رنگ میں لوگ رات گئے تک محفل میں موجود رہے اور انہوں نے پرانے شعرا کے کلام کے ساتھ ساتھ محفل میں موجود شاعروں کے کلام کو بھی ان گلوکاروں کی مسحور کن آواز میں سنا۔مضراب خیال ہر لحاظ سے موسیقی کی ایک کامیاب محفل تھی۔

اس پوئٹری فیسٹول کے تعلق سے فیسٹول کے روح رواں ا ور لیڈنگ ایج کے بنیا د گزار طارق فیضی کا کہنا تھا کہ وہ اردو اور اس میں ہونے والی شاعری سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کا یہ مقصد بنالیا ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں وہ معیاری ادب و شعر کو پہنچا کر ہی دم لیں گے اور جاوید اختر جیسے دانشوروں کا ساتھ انہیں حاصل ہے، اس لیے انہیں اس مقصد میں آگے بھی ضرور کامیابی ملتی رہے گی۔ مشہور شاعر خورشید رضوی نے بھی طارق فیضی کی کوششوں کو بہت سراہا۔

ان کے بقول اردو کی ایسی محفلیں شاذ ہی وجود میں آتی ہیں، جہاں بیک وقت اتنے اہم ادیبوں کو جمع کرلیا جائے۔ مشہور نظم گو وحید احمد نے بھی گلوبل اردو پوئٹری فیسٹول کو تعریفی کلمات سے نوازا ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی محفلیں اردو میں نظم کی روایت کو مضبوط کریں گی اور اس کی اہمیت کو تسلیم کروانے میں مددگار ثابت ہونگی۔ معروف شاعرہ حمیدہ شاہین نے بھی لیڈنگ ایج کی ان کوششوں کو لائق تحسین عمل قرار دیا۔ان کے الفاظ میں کہا جائے تو یہ محفلیں اردو کی زندگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔

گلوبل اردو پوئٹری فیسٹول کے تعلق سے وہاں موجود حاضرین سے بھی گفتگو کی گئی، دبئی میں موجود شرکا نے ایسی مزید محفلوں کی خواہش کا اظہار کیا جو کہ طارق فیضی کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔ پروگرام میں موجود تجارت پیشہ افراد کو بھی اس پروگرام میں پرخلوص شرکت اور تعاون کے لیے مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ ان کی خدمات کا ایک لحاظ سے ایک خوبصورت اعتراف تھا-

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!