ہڈیوں کے ڈاکٹر سے ایک صاحب الجھ پڑے، کسی نے کہا یہ ہڈیوں کے ڈاکٹر ہیں جہاں ہڈیاں جوڑتے ہیں وہیں ہڈیوں کو توڑنے کے فن سے بھی آشنا ہیں۔ اس لیے احتیاط کریں۔
وطن عزیز میں توڑ جوڑ کے فن کو تقویت دوسرے آمرانہ دور میں حاصل ہوئی۔ آج یہ پودا ایک تن آور درخت بن چکا ھے اور وطن عزیز کی بنیادوں کو کھوکھلا کیے جا رہا ھے۔1980 کے اوائل میں ایک آمر نے صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی پارٹی کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے اندون سندھ، جی اے سندھ پارٹی بنائی، کراچی میں جماعت اسلامی کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی۔
ان دنوں پارٹیوں کو اداروں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور آج بھی ہو رہی ہیں۔ حکومت بنانا ،گرانا اور بلیک میل کرنا یہی ان پارٹیوں کا وتیرہ رہا ھے کیونکہ انکو کنٹرول کوئی اور کرتا ھے۔ایم کیو ایم جب کنٹرول سے باہر ہو گئی، اسکے قائد کو ملک سے فرار کروا دیا گیا۔ آج لندن میں خود ساختہ جلا وطنی گزار رہے ہیں۔
آج پھر ایسا لگتا ھے 1980 کی دہائی واپس آگئی ھے فرق صرف اتنا ھے۔ آج تحریک انصاف کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے موجودہ حکومت اور ادارے مل کر ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ انہی اداروں نے ایم کیو ایم کو نہ جانے کتنے دھڑوں میں تقسیم کیا تھا۔آج دوبارہ انکو متحد کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
لندن سے الطاف حسین کو واپس لانے پر غور کیا جا رہا ھے۔ سارے کھیل کا مقصد کراچی میں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنا مقصود ھیں۔
تحریک انصاف الیکشن جیتی ھے تو کراچی پر اسکا کنٹرول نہ ہو۔ کراچی پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلاتا ھے، حکومت کو کنٹرول کرنے اور بلیک میل کرنے کی مثالیں ماضی میں موجود ہیں۔ الیکشن میں دھاندلی، بھتہ خوری، قتل کی وارداتوں کا سلسلہ ، فائرنگ ، بوری بند نعشیں اور زبردستی ہڑتال کروانا ۔ آگ اور خون کا کھیل شہر قائد میں کھیلا گیا ھے۔
در پردہ ایک بار پھر وہی طاقتیں متحرک ہو گئی ہیں جنہیں اقتدار اور طاقت سے مطلب ھے۔کراچی میں توڑ جوڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ھے ، مقصد صرف ایک ہی ھے جب بھی انتخابات ہوں مخلوط حکومت برسرِ اقتدار آئے، ہماری اجارہ داری چلتی رہے۔