ہم اتنے فلمی ہوچکے ہیں کہ خط کا مضمون لفافہ دیکھ کرہی بھانپ لیتے ہیں جیسا کہ عنوان کبھی خوشی کبھی غم کو دیکھ کر ہی یوں لگ رہا ہو جیسے ہم بھارتی فلم کی بات کررہے ہیں، بات تو فلم کی ہی ہے مگر یہ فلم کچھ ایسے حقائق پر مبنی ہے جس تک ہماری سوچ کی رسائی کبھی ہو ہی نہیں سکتی ۔ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے بالفاظ دیگر دنیا میں تیسری عالمی جنگ معاشی طور پر مسلط ہوچکی ہے مگر ہماری ترجیحات حاجی، قاضی نیک نمازی تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔فلم کچھ اس طرح کی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے لے کر اداروں تک ہرجگہ کچھ ایسے فلم ساز بیٹھے ہیں جنہوں نے عوام کو خوشی اور غم کے کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ماضی قریب کے کچھ واقعات کو دیکھا جائے تو جمعے کا دن ایسا افضل بنا ہوا تھا کہ ہر جمعے کو کبھی مٹھائی تقسیم ہوتی تھی تو کبھی ماتم برپا ہوتا تھا، کبھی کوئی لیڈر نااہل ہوتا تھا تو کبھی کسی سیاسی جماعت پر پابندی کے سائے منڈلاتے تھے، کبھی فوج کے اعلیٰ عہدیدار کی مدت ملازمت بڑھ جاتی تھی یہاں تک کے ملک کی سب سے مضبوط و مشہور شخصیت کو فقط ڈائری لینے ایوانوں میں جاتے دیکھا گیا۔ پھر حالات کا پانسہ کچھ یوں پلٹہ کہ جس جماعت کے لئے جمعے کا دن مبارک ہوا کرتا تھا اب ان کو عید کا دن بھی بھاری لگنے لگا۔بطور محب وطن اوورسیز پاکستانی ہم نے وطن سے دور وطن کی خاطر سڑکوں پر ملک کی آن بان شان کا خوب جنازہ نکالا، ہم نےیہ ثابت کر دکھایا کہ ہم ایک باشعور او رسچی قوم ہیں ہمارے گھر میں بھی کوئی کرپٹ ہو ہم اسے سڑکوں پر لاکر اسی طرح ذلیل کرسکتے ہیں جیسے ہم مثالی قوم بن کر فوج کو لتاڑ رہے ہیں۔
آج بھی اس حقیقی فلم میں کبھی خوشی اور کبھی غم کا سلسلہ جاری ہے اور اب یہاں جمعے کے دن کا ذکر نہیں بلکہ سافٹ وئیر اپڈیٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اگر ایک سیاسی جماعت کے رہنما کا سافٹ وئیر اپڈیٹ ہوتا ہے تو دوسری سیاسی جماعت میں خوشی کی لہر دوڑتی ہے اور جس کا سافٹ وئیر اپڈیٹ ہورہا ہو وہاں صفِ ماتم۔ اس پورے فلمی منظر نامے کو اگر بچپن کے کھیل کی نظر سے دیکھیں تو یہ لکا چھپی کا کھیل لگتا ہے ،جیسے بچپن میں ہم لکا چھپی کھیلتے تھے تو ہمیں کھوج نکالنے والا کہتا تھا کہ کوئی چھپے نہ چھپے میں آرہا ہوں، بالکل ایسا ہی دنیا میں ہورہا ہے، دنیا کی ابتر معاشی اور جنگی صورتحال بھی ہر ملک سے یہ ہی کہہ رہی ہے کوئی سنبھلے یا نہ سنبھلے مجھے سب کو بہا کر لے جانا ہے، مگر ہم کرشموں پر یقین رکھنے والی قوم کوئی دم درود کرلیں گے وقت آنے پر پہلے ہم وطن کو تو حقیقی آزادی سے ہمکنار کروائیں۔ہماری فلم کبھی خوشی کبھی غم میں اس وقت غم کا ماحول چل رہا ہے ہم اس وقت پرانی دنیامیں احتجاج کرنے کا سوچ رہے ہیں،وہ احتجاج جس سے ہم کو عالمی برادری کو پیغام دینا ہے کہ ہمارے حکمران چور ہیں، ہمارے عسکری قیادت حاجی و حافظ چندی چور ہیں، اورپھر اس عالمی احتجاج کے بعد ہم ایک آزاد فضا میں سانس لینے کے قابل ہوجائیں گے۔
فلم کے انٹروول میں اگر ہم چائے کی چسکی لگا کر یہ سوچیں کہ جب ہم یورپ یا امریکہ میں اپنے ہی سفارتخانوں کے باہر اپنی ہی فوج اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف مغلظات بکتے ہیں تو اس کے کیا نقصانات ہوتے ہیں تو شاید ہم دھنگ رہ جائیں، ہم اکثر و بیشتر اسی بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمارے ملک میں فارن انویسٹمنٹ کیوں نہیں آتی اور دوسرا ہم عالمی برادری کو بھی کو لعن طعن کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی پاکستان کے ساتھ کیوں کھڑا نہیں ہوتا ، جناب عالی جب ہم ان باشعور اور ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں پر اپنے حکمرانوں کو چور کہیں گے تو کیا کوئی اپنا پیسہ برباد کرنے پاکستان جائے گا؟ ہرگز نہیں، اور جب ہم اپنی ہی فوج کو گالم گلوچ کی لپیٹ میں لیں گے تو کیسے ہم دنیا کو یہ بتا سکیں گے کہ بھارتی افواج کشمیریوں پر ظلم کررہی ہے، ہم تو خود دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہماری فوج نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے۔گزشتہ دو سالوں سے یورپ میں پاکستان مخالف بھارتی مؤقف کو یورپی یونین اور انسانی حقوق کے علمبردار ملکوں کے ایوانوں میں سچ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی گئی، اوورسیز پاکستانیوں کے احتجاج کی تمام تر فوٹیجز بطور ثبوت پیش کی گئیں کہ جس ملک کے عوام سڑکوں پر اپنی ہی فوج کے خلاف سراپا احتجاج ہے وہ کس طرح یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارتی فوج ظالم ہے۔
اب جب بات فلم کی ہی نکلی ہے تو حال ہی میں بھارت کی جانب سے پاکستان مخالف بننے والی فلم کی بھی بات کرلیتے ہیں، فلم شاید اچھا بزنس کر رہی ہے اور ہم پاکستانی بہترین پڑوسی ہونے کا بھرپور ثبوت دے رہے ہیں ہم بمعہ اہل و عیال فلم دیکھنے دنیا بھر کے سنیماؤں میں جاکر نا صرف فلم دیکھ رہے ہیں بلکہ فلم شروع ہونے سے قبل سوشل میڈیا کی پوسٹ میں لکھتے ہیں کہ شدت سے مووی شروع ہونے کاانتظار کررہے ہیں، ٹھیک ہے بھارت ہمارا دشمن ہی ٹھرا مگر بطور مسلمان ہم اپنے اخلاق سے یہ تو ثابت کرسکتے ہیں کہ مسلمان اپنے رویے سے اپنے شریرپڑوسی کو متاثر کرکے اسلام کی جانب راغب کرتا ہے۔ ہم نے عسکری گانوں پر شدید تنقید کی کہ ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہےمگر عملی طور پر ہم نے ہمیشہ مثبت پیغام ہی بھارت کی جنتا کو دیا ہےکہ بچے تو تمہارے ہم نے ہی پڑھانے ہیں چاہے اب تم فلم دکھا کر ان کی اسکول کی فیس ہم سے لو یا پھر اپنی پیاز ہمیں بیچ کرزرمبادلہ کماؤ، دونوں ہی صورتوں میں ہم پاکستانیوں نے آپ کے بچوں کے تعلیمی اخراجات میں مدد کرنی ہے۔
تو گویا ثابت یہ ہوا کہ ہم پڑوسی کی خوشی و غمی میں بھرپورساتھ ہیں یعنی اگر کرونا کے دور میں ان کی گیس ختم ہوجائے تو ہم کھڑے ہیں اور جب انکی کوئی بلاک بسٹر فلم اچھا بزنس کرے تو ہم خوشی میں جھوم اٹھیں۔مگر کشمیر کے معاملے میں ہمارا مؤقف ایک ہی ہےکہ وہ ہماری شہہ رگ ہے، اب چند دن بعد ہم سب سوشل میڈیا پر یوم ِیکجہتی اس دھوم سے منائیں گے کہ بھارت ہمارے پوسٹر دیکھ کر شرمندہ ہونے پر مجبور ہوگا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ہماری فلم کے لئے شدت سے منتظر تھے آج مظلوموں کے حق میں بول رہے ہیں ، شاید یہ بات ان پر اثر کرے اور کشمیر کو آزادی نصیب ہوجائے کیوں کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔گزشتہ چند سالوں میں ہم نے کشمیر کی آزادی کے لئے ہر ممکن کوشش کی جس میں دو منٹ کی خاموشی سرفہرست رہی۔
خیریہ کبھی خوشی کبھی غم والا چکر شاید یوں ہی چلتا رہے گاہم اوورسیز پاکستانی احتجاج کے لئے ملک سے ملنے والے اشاروں کے منتظر رہیں گے، ہم یوں ہی اپنے لیڈران کی کامیابیوں پر مٹھایاں بھی تقسیم کرتے رہیں گے اور پھر یوں ہی فلمیں دیکھ کر خوشیوں کا اظہار کریں گے اور پھر یوں ہی پوسٹر شئیر کرکے کشمیر کے غم میں شریک رہیں گےکیونکہ پاکستان ہماری اولین ترجیح ہے۔