اس تاثر کو پیدا کرنے میں کوئی حرج نہیں رہا کہ وطن عزیز کے قوانین، دولت کے ذرائع صرف اور صرف اشرافیہ کیلئے ہیں ،اس اشرافیہ میں صرف دولت مند ہی نہیں سیاست دان بھی آتے ہیں جو سیاست بساط پر قدم رکھنے کے ساتھ اگر دولت مند نہیں ہیں تو صبر کریں جلد ہوجائینگے۔گزشتہ دنوں دنیا نے ہمارے قانونی اداروں کی روش دیکھی،جو ایک شخص کووقت پر طلب نہیں کرسکی، طلب تو کیا مگر اس نے اپنی ہٹ دھرماناعادت کی بناء پر اپنے متعین کردہ وقت پرہی عدالت پہنچا۔اگر عام آدمی کو طلب کیا جاتا اور وہ بھی ذرا بھی ’’چوں پوں ‘‘کرتا تو متعلقہ تھانے دار ’’آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے‘‘ والا ڈانڈہ کے ذریعے اسے لے آتا۔مگر مراعات یافتہ تو مراعات یافتہ اسکے انتظار تمام معزز جج صاحبان نے عدالت کا وقت گزرنے کے بعد بھی کیا ،قانون تو ایک ہے مگر یہ کیا جو حزب اختلاف میں ہو تو تمام تر قوانین کا اطلاق، گرفتاریاں، جیل، مقدمے، اور حکومت میں آتے ہی تمام مقدمات سے وہی عدالتیں ’’بری‘‘کا حکم نامہ تھما دیتی ہیں!
عمران خان پر الزام ہے کہ وہ ’’یو ٹرن‘‘کا ماہر ہے، جب قانون یو ٹرن لیتا ہے اور مجرم کو ساہوکار، اور ساہوکار مجرم بناتا ہے تو کیا قانون کی کتابیں اسکا درس دیتی ہیں؟ قانون تو ایک ہے مگر کچھ لوگو ں کی خواہش ہوتی ہے کہ انکا مقدمہ اسلام آباد میں لگے، یا لاہور میں، عدالتوں کا چناؤ کیوں ؟ غرض وہ عوام جو پہلے ہی اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں یہ مناظر دیکھ کر کیونکرانصاف کا مذاق نہ اڑائیں؟
اب تو رو ش یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر معزز ججز صاحبان کا مزاق اڑایا جاتا ہے، سیاست دان اپنے خلاف مقدمات پر اپنے بے ہنگم کارکنوں کو عدالت پہنچنے کا حکم دیتے ہیں یہ سب قانون پر دباؤ کا طریقہ کار ہے، جس پر ملک کا کوئی ادارہ نہیں بولتا ۔قانون کی ’’پاسداری‘‘ اسقدر ہے کہ ہمارے ملک کا وزیر داخلہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ’’فلاں کو گرفتار کیا جائے‘‘ اہم منصب پر فائزوزیر اب یہ مطالبہ کس سے کرر ہا ہے ؟ اللہ ہی جانے۔دوسری جانب قانون اتنا سخت ہے کہ وزیر داخلہ کے توخود کے بھی وارنٹ جاری ہوجاتے ہیں، اس تمام تر ظاہری سخت قانون کے باوجود نہ جانے عالمی ادارے کیوں پاکستان میں انصاف کو معیار کے مناسبت سے عالمی ادارے پاکستان میں قانون کا نفاذ بہت نچلے درجے کا 139ممالک میں پاکستان کا نمبر 130واں ہے، اسے اوپر درجے پر کون لیجانے کی سعی کرے گا؟ ، اللہ ہی جانے۔ مراعات یافتہ طبقات قانون میں مراعات کے مزے نہیں لے رہے وہ ملک کی تباہ حال معیشت میں اپنے ہاتھ بھر پور انداز میں رنگ رہے ہیں۔
IMF کا حملہ ہوتا ہے تو صرف ان اشیاء پر جو عام عوام کی اشد ضروریات ہیں اسی وجہ سے جب جب IMFحملہ آور ہوتا ہے عوام کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔نہ IMF سے مذاکرات کندگان اس طرف توجہ دلاتے ہیں چونکہ وہ خود مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں یا انکے نمائندہ ہوتے ہیں، اس لئے ا س دفعہ IMF نے خود توجہ دلائی کہ نمبر ایک حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے، دوم مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے، IMF کے علم میں نہ جانے کیوں نہیں شرح کیا بڑھائی جائے وہ تو ٹیکس ہی نہیں دیتے کوئی نہ کوئی بہانے تراش لیتے ہیں، بلکہ رشوت دیتے ہوئے پکڑا گیا ہے رشوت دیکر چھوٹ جا والا محاورہ یہا ں لاگو ہوتا ہے، اور اسطرح اربوں روپے حکومت کے خزانے میں نہیں آپاتے۔ ا س وقت ملک کو جن سنگین ترین معاشی حالات کا سامنا ہے ان میں بھی حکومت یا کسی سیاسی جماعت نے امیروں کے لیے سبسڈی اور سہولیات و مراعات کم یا ختم کرنے کی بات نہیں کی تاہم آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے ایک جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرے اور انھیں دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری اور نجی شعبے میں اچھا کمانے والوں کو معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے اس انٹرویو کے دوران مزید کہا کہ پاکستان میں امیر لوگوں کو سبسڈیز سے مستفید نہیں ہونا چاہیے۔ سبسڈی صرف ان لوگوں کو منتقل کی جائے جنھیں واقعی اس کی ضرورت ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جس بات کا احساس ہماری سیاسی قیادت کو خود ہونا چاہیے اس کی طرف توجہ ایک ایسے ادارے کی سربراہ دلا رہی ہے جو ایک قرض دہندہ کے طور پر ہمارے ہاں اچھی شہرت نہیں رکھتا۔کرسٹالینا جارجیوا نے یہ بھی کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکستان کو قرضوں کی ری سٹرکچرنگ نہیں بلکہ ملک چلانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وہ آئی ایم ایف سے مدد مانگ رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں پاکستان ایک ملک کے طورپر اقدامات کرے۔ پاکستان کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ وہ اس قسم کی خطرناک صورتحال سے دوچار نہ ہو کہ اسے اپنے قرض ری سٹرکچر کرنا پڑیں۔
آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے کہا کہ ہم پاکستان پر دو اہم نکات پر زور دے رہے ہیں: پہلا نکتہ ٹیکس ریونیو کا ہے اور دوسرا یہ کہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔جو باتیں آئی ایم ایف کی سربراہ نے مذکورہ انٹرویو کے دوران کی ہیں ہمارے کسی سیاسی رہنما کو یہ سب کہنے کی توفیق نہیں ہوئی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کا تعلق بھی اسی اشرافیہ سے ہے جو اس ملک کے وسائل کا بڑا حصہ ہڑپ کررہی ہے اشرافیہ اور سیاسی قیادتیں شرم نامی چیز سے بہت دور ہوتے ہیں اسلئے کرسٹا لینا جاجیوا کی باتوں پر شرم توآئی نہ ہوگی ۔ جب بھی ٹیکس بڑھانے یا سبسڈی کم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو تمام مراعات یافتہ طبقات کے نمائندے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے انتخابی نظام کو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی عام آدمی الیکشن میں حصہ لے کر رکن پارلیمان کے طور پر منتخب ہو ہی نہیں سکتا، لہٰذا عام آدمی کی آواز کبھی ان ایوانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کے باتوں پر ہمارے حکمران کتنا عمل کرتے ہیں ، اگر اس ملک کو یا اپنی حکومت کو ایڈہاک ازم پر نہیں چلانا تو ان پر عمل درآمد کرنا تو اشد ضروری ہے اور خاص طور پر اب جب کہ مہنگائی کے سونامی میں حکومت اتحاد کی تو نہیں بلکہ اس میں بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی لوٹیا ڈوبنے کی طرف گامزن ہے کہ میاں نواز شریف فرض کریں پاکستان آبھی جائیں تو مسلم لیگ ن تو پنجاب میں نشستیں نہیں لے سکے گی۔ اتحادیوں کے پریشر میں اور اس میں موجود ہر چھوٹی جماعت کی آخری خواہش ہےکہ زندگی میں کبھی جھنڈے وا لی گاڑی میں بیٹھوں۔
وزیر اعظم نے کابینہ کی تعداد 85کردی ہے ،اس بدنامی کا ملبہ کسی پر نہیں صرف اور صرف مسلم لیگ ن پر پڑے گا اور اس پر مسلم لیگ ن کے زعماء (جو آپس میں بٹ چکے ہیں )کو فوری نظرثانی نہ کی تو’’تو تمھاری دانستاں نہ ہوگی دانستانوں میں‘‘۔ادھر جیسے ہی آئی ایم ایف کا مطالبہ مراعات یافتہ طبقات کے حوالے سے آیا ہے ،مراعات یافتہ افسران کے گروہوں نے اپنے تحفظ کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کردیے۔ ایک ایسا ملک جس میں وسائل پر قابض طبقات خود کو کسی قسم کے ذمہ داری کے لیے پیش ہی نہیں کرنا چاہتے اور خود کو ہر طرح کے احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں وہاں معاشی استحکام دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔