امریکی سفارتکار کی بیوی 60 سال بعد بھی پاکستان کو کیوں یاد کرتی ہے؟

0

یہ سال 2001 ء کے ابتدائی مہینوں کی بات ہے۔ جب نیویارک میں مس سوزن سے میری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب میں بطور صحافی پہلی بار امریکہ آیا تھا۔ اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹر نیویارک میں بطور صحافی کام کرنے کے لیے مجھے ”یواین میڈیا ایکری ڈیشن“ (پریس کارڈ) درکار تھا۔ اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ نے مقامی و انٹرنیشنل صحافیوں سمیت اقوام متحدہ میں کام کرنے والے ہزاروں سفارتی و نیم سفارتی ملازمین کی ”ایکری ڈیشن“ و معاونت سمیت اقوام متحدہ کے پریس کارڈز (پاسیز) کے اجراء کے لیے ایک ادارہ ”“ یواین میڈیا ایکری ڈیشن اینڈ لائیزان یونٹ ”قائم کیا ہوا ہے۔

مس سوزن بھی اقوام متحدہ کے اسی ادارے میں کام کرتی تھی۔ جس روز میں نے اقوام متحدہ کا پریس کارڈ بنوانے کے لیے پہلے سے پر کیا ہوا فارم اور اپنا پاسپورٹ جس خاتون اہلکار کے حوالے کیا۔ وہ سنہری بالوں اور سفید رنگت والی مس سوزن ہی تھی۔ خلاف توقع میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر سوزن کے سرخ و سفید چہرے پر خوش گوار مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے خوشدلی سے میرا استقبال کیا۔ مسکراتے ہوئے میرے پاسپورٹ کی جانب دیکھتے ہوئے اس نے کہا ”او ہو! تو آپ پاکستان سے ہیں؟“ جی ہاں۔ میرا جواب سن کر سوزن نے مزید خوش ہوتے ہوئے مجھے بتایا کہ ”وہ آدھی پاکستانی اور آدھی امریکن ہیں۔ یعنی ان کی پاکستان اور امریکہ کی دوہری شہریت ہے۔“

سوزن نے یہ بتا کر مجھے نہ صرف حیران کر دیا تھا بلکہ ساتھ ہی مختلف قسم کے صحافیانہ سوالات بھی میرے ذہن میں گردش کرنے لگے تھے کہ یہ سب کب، کیوں اور کیسے ہوا؟ سوزن اپنا دفتری کام بھی کرتی جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ میرے سوالوں کے جواب بھی دے رہی تھی۔

سوزن نے مجھے بتایا کہ ”جن دنوں پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا۔ تو اس وقت امریکی سفارت خانہ بھی کراچی میں تھا۔ اس کے والد امریکی سفارت خانے میں سفارت کار تھے۔ وہ ان دنوں ( 1958۔ 1962 ) امریکی بین الاقوامی ترقیاتی پروگرام کے پاکستان میں انچارج تھے۔ اسی عرصے میں ان کی پیدائش کراچی کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔ وہ تو چونکہ بہت چھوٹی عمر میں پاکستان سے اپنے والدین کے ہمراہ واپس آ گئی تھی۔ تاہم کے والدین کی بڑی حسین یادیں پاکستان خصوصاً کراچی شہر سے وابستہ ہیں۔“

سوزن نے مزید بتایا کہ ”بعد ازاں 1962 ء میں ان کے والد کی پاکستان سے مصر ٹرانسفر ہو گئی تھی۔ سوزن موقع پر میری تصویر بنا کر پریس کارڈ تیار کر کے میری جانب بڑھا چکی تھی۔ میری درخواست پر اس نے اپنے وزیٹنگ کارڈ پر اپنا موبائل۔ فون لکھ کر میرے حوالے کیا۔ اور میں دوبارہ سوزن سے ملنے کے وعدے پر رخصت ہو گیا۔

پھر کئی سال گزر گئے۔ غم روزگار اور زندگی کے دیگر معاملات ترجیحات میں رہے۔ اس اثناء میں اقوام متحدہ میں مختلف ایونٹس کی کوریج کے لیے تو جانا ہوتا رہا، دو ایک بار سوزن سے اقوام متحدہ کی راہداریوں میں ہیلو ہائے بھی ہوئی مگر تفصیلی ملاقات دوبارہ نہ ہو سکی۔ گزشتہ دنوں پرانے کاغذات تلف کرتے ہوئے اچانک سوزن کا دیا ہوا وزٹنگ کارڈ نظروں کے سامنے آ گیا تو اس سے اپنے امریکہ آنے کے ابتدائی دنوں کی ملاقات بھی یاد آ گئی۔ پھر ایک روز اسے فون کیا اور اپنے متعلق بتایا، مگر شاید برسوں پہلے کی وہ مختصر سی ہوئی رسمی ملاقات اس کی یادداشت سے محو ہو چکی تھی۔ تاہم اس نے بتایا کہ وہ چند برس پہلے اقوام متحدہ کی ملازمت سے ریٹائر ہو چکی ہے۔

پھر کرونا کے دنوں میں ہی مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان میں سفارت کار رہے سوزن کے والد مسٹر جیمز سٹرٹن۔ کروکی (James Stratton Crooke) 25 مئی 2019 ء کو 90 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ ان سے ملاقات کی میری شدید خواہش تھی۔ جو پوری نہ ہو سکی۔ اس سلسلے میں چند سال پہلے نیویارک میں اپنے مرحوم صحافی دوست ارشد چوہدری سے بھی پروگرام بنا کہ مسٹر جیمز سے وقت لے کر اکٹھے ان سے ملاقات کے لیے اکٹھے نیویارک کے مضافات میں واقع ان کے رہائشی علاقے سکار سڈیل چلیں گے۔ مگر پھر دیگر معاملات زندگی بدستور حاوی آتے رہے۔ اور مسٹر جیمز سے ان کی زندگی میں ملاقات کا پروگرام پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔

اور وہ پاکستان اور خصوصاً کراچی شہر سے متعلق بہت سی حسین یادیں لیے اگلے جہان سدھار گئے۔ اور صحافی دوست ارشد چوہدری بھی گزشتہ سال ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔

امریکی سفارت کار جمیز سٹراٹن کروکی نے 1958 سے 1962 تک چار سال کا عرصہ امریکی سفارت خانہ کراچی میں بطور انچارج امریکی انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ پروگرام گزارا۔ اس سے قبل امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو جائن کرنے سے پہلے وہ امریکی نیوی میں رہے تھے۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے پاکستان میں امریکی امداد سے بڑے ڈیموں سمیت کئی بڑے ترقیاتی منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔

مسٹر جیمز کے حوالے سے یہ پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ انہوں نے پاکستان میں اپنے عرصہ تعیناتی کے دوران امریکی امداد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ریلوے لائن (ریل روڈ) کا ایک میگا پراجیکٹ بھی بنایا تھا۔ تاہم ان کے پاکستان سے مصر تبدیل ہو جانے کے بعد یہ بڑا منصوبہ کاغذوں اور نقشوں میں میں بنا ہی رہ گیا۔ اور اسے عملی جامہ پہنانے کی نوبت آج تک نہیں آئی۔

مسٹر جیمز چونکہ پیشے کے لحاظ سے ایک بین الاقوامی انڈسٹریل انجنئیر تھے۔ مصر میں ٹرانسفر ہونے کے بعد انہوں نے اسی حیثیت میں مصر سے دمشق تک ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کا ایک بڑا منصوبہ بھی ڈیزائن کیا تھا۔ جو پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ بعد ازاں جیمز اپنی فیملی کے ہمراہ واپس امریکہ آ گئے۔ جہاں بعد ازاں انہوں نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ملازمت چھوڑ کر 1968 ء میں اقوام متحدہ کے ادارے ”انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن“ (یو این آئی ڈی او) کو جوائن کیا۔ جہاں وہ بطور بین الاقوامی انڈسٹریل انجنئیر اور بعد ازاں ادارے کے سربراہ کے طور پر بطور ڈائریکٹر 1990 ء تک اقوام متحدہ میں کام کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے۔

اپنی قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت جیمز نے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی انڈسٹریل امپروومنٹ کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جیمز نے اپنی فیملی خصوصاً اپنے گیرینڈ چلڈرنز کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے ٹاؤن سکارسڈیل میں سنٹ جیمز چرچ تعمیر کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جیمز سٹراٹن کروکی، 4 جون 1928 کو نیویارک میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے لواحقین میں بیوہ نینسی، بھائی تھامس، بہن جوآن، کزن ایڈیتھ، اپنے بچوں سوزن، جیمز، ڈائنا (پیٹرک) اور گرینڈ چلڈرنز میں مریم، ایرک (ہؤئی۔ وان) ، پامیلا، لیوک اور کیٹ جبکہ گریٹ گرینڈ چلڈرنز میں جیمز، آرتھر، روبی اور اینڈریو کو سوگوار چھوڑا۔ مسٹر جیمز کی آخری رسومات سنٹ جیمز چرچ سکارسڈیل، نیویارک میں 14 جون 2019 کو ادا کرنے کے بعد انہیں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

پاکستان میں تعینات رہے امریکی سفارت کار جیمز کی وفات کے بعد میری خواہش تھی کہ ان کی اہلیہ مسز ننسی ایندریسن جیمز سے ملاقات کر کے پاکستان میں ان کے گزرے ماہ و سال کی یادیں شیئر کی جائیں۔ کئی مہینوں کے انتظار کے بعد رابطہ کرنے پر انہوں نے اپنی بیماری کی وجہ سے ملنے سے معذرت کر لی تاہم میرے اصرار پر وہ ٹیلی فون پر انٹرویو دینے پر رضامند ہو گئیں۔ میں نے یہی غنیمت جانا۔ دوران انٹرویو مسز ننسی جیمز کے صاحبزادے جم، بیٹی سوزن اور مسٹر جیمز کی بہن جوآن بھی موجود تھیں۔

پاکستان میں سفارت کار رہے جیمز کے ہمراہ چار سال گزارنے والی ان کی اہلیہ 88 سالہ نینسی جیمز نے مجھے انٹرویو کے دوران پاکستان کے شہر کراچی میں گزرے اپنے ماہ و سال ( 1958۔ 1962 ) کی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ”انہیں پاکستان کے شہر کراچی سے بڑی محبت ہے۔ انہیں وہاں گزارے ہوئے اپنے چار سال بڑے یاد آتے ہیں۔ اور کراچی شہر سے ان کی بڑی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔“

بیماری اور اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ننسی کی یادداشت کافی اچھی تھی۔ مسز ننسی کا کہنا تھا کہ ”کراچی میں رہتے ہوئے ان کے اپنے ہمسایؤں کے ساتھ بڑے اچھے اور خوشگوار تعلقات تھے۔ کراچی میں قیام کے دوران ان کی بہت سے اچھے لوگوں سے دوستیاں بنیں۔ ان کا اکثر مواقع پر ہمارے گھر پر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی ان بیتے دنوں کی کتنی ہی حسین یادیں انہیں آج بھی اکثر یاد آتی ہیں۔ جب ان کے شوہر جیمز امریکی سفارت خانے میں امریکی بین الاقوامی ترقیاتی پروگرام کے انچارج کی حیثیت سے وہاں تعینات تھے۔“

ننسی نے اپنی مزید یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”انہیں خوب یاد ہے کہ کراچی میں ان کے گھر پر اکثر پارٹیاں ہوتی تھیں، جہاں اعلیٰ حکومتی و سیاسی حکام شرکت کرتے تھے۔ کئی بار صدر پاکستان ایوب خاں بھی ہمارے گھر پر ایسی پارٹیوں میں شریک ہوئے تھے۔ جہاں کئی بار ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ بڑی خوشگوار اور ہنس مکھ طبیعت کے مالک تھے۔ ان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔“ مسز ننسی نے بتایا کہ ”انکی بیٹی سوزن بھی اسی دوران کراچی کے ایک ہسپتال میں پیدا ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے ان کی پاکستانی و امریکن دہری شہریت ہے۔“

مسز ننسی جیمز نے اپنے انٹرویو کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ ”ان کے شوہر جیمز سٹارٹن چونکہ ایک بین الاقوامی انڈسٹریل ڈیزائنر تھے۔ انہوں نے امریکی سفارت خانہ کراچی میں اپنی پوسٹنگ کے دوران پاکستان میں دیگر منصوبوں کے علاوہ پاکستان سے افغانستان تک ریل روڈ (ریلوے لائن) بچھانے کا ایک ماسٹر پلان بھی ڈیزائن کیا تھا۔ جو امریکی امداد سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔

ان دنوں کراچی شہر کیسا تھا؟ سوال کے جواب میں مسز ننسی کا کہنا تھا کہ ”کراچی شہر ان دنوں کافی بارونق، پرامن اور بڑی آبادی والا شہر تھا۔ میں اکثر اکیلے گاڑی چلاتے ہوئے کراچی کے بازاروں میں چلی جاتی تھی۔ انہیں کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوتا تھا۔ وہاں کے لوگ بڑے ملنسار اور محبت کرنے والے تھے۔“

کراچی میں اپنے قیام کے دوران کی تصاویر کے متعلق سوال کے جواب میں ننسی کا کہنا تھا کہ ”ان کے پاس کراچی سے متعلق کافی بڑی البم ہے، جو وہ اپنے پرانے سامان میں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گی۔“ تاہم ہمارے آخری میسج کے جواب میں ننسی کا یہی رسپانس آیا تھا کہ ”ابھی تک گھر پرانی تصاویر تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ کیونکہ انہیں یاد نہیں آ رہا کہ وہ کہاں رکھی ہوئی ہیں۔“ (اس مضمون میں شامل زیادہ تر تصاویر ننسی اور ان کے بیٹے جم کے فیس بک پیج سے لی گئی ہیں )

پاکستان میں رہے سابق امریکی سفارت کار جیمز سٹارٹن کی بہن جوآن بھی جو ان کے ساتھ کراچی میں رہیں کا کہنا تھا کہ ”کراچی میں ان کا بڑا یادگار وقت گزرا۔ وہ بھی کافی عرصہ اپنے بھائی کی فیملی کے ہمراہ کراچی میں قیام پذیر رہیں تھیں۔ دیگر شہروں کے علاوہ کراچی میں ان کا بڑا یادگار وقت گزرا۔ ان کی فیملی کی کتنی ہی حسین یادیں اس شہر سے وابستہ ہیں۔ جو اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی انہیں یاد آتی ہیں۔ جوآن کے بقول جیمز بڑے فیملی مین، ہر ایک کے ساتھ محبت کرنے والے ایک مہربان، ڈیسنٹ اور جنؤئن آدمی تھے۔ وہ ایک لحاظ سے روحانیت پر بڑا پختہ یقین رکھنے والی شخصیت بھی تھے۔

اس موقع پر کراچی میں پیدا ہونے والی 63 سالہ سوزن کا کہنا تھا کہ ”وہ پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں کراچی کے بارے میں کچھ زیادہ علم تو نہیں ہے، کیونکہ وہ بہت چھوٹی عمر میں اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان سے مصر چلی گئی تھیں۔ وہ اکثر اپنے والدین سے کراچی میں گزرے ان کے وقت کی باتیں اور یادیں سنتی رہتی رہیں۔ وہاں سے آنے کے بعد دوبارہ نہ ہی ان کا اور نہ ان کے والدین کا دوبارہ پاکستان کبھی جانا ہوا۔ تاہم قدرتی طور پر انہیں اپنی جائے پیدائش سے ایک قسم کا لگاؤ ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ دوبارہ کبھی پاکستان جائیں اور خصوصاً اپنی جائے پیدائش کراچی کو دیکھ کر آئیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.