پیرس(ویب ڈیسک)فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی انتہائی متنازع پنشن اصلاحات کے خلاف تین ماہ سے جاری احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 150 اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اب تک کے سب سے سنگین تشدد میں جمعرات کو مظاہرین کی فرانسیسی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ کے بعد بڑی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔حکام کے مطابق مظاہرین نے کئی شہروں میں سڑکوں پر نکل کرپُرتشدد احتجاج کیا اور پیرس کے ایک تاریخی مرکز میں آگ لگائی۔
پولیس نے کئی شہروں میں تشدد میں ملوث مظاہرین کو حراست میں لیا ہے۔فرانسیسی صدر کی جانب سے اصلاحات اُن کی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آئیں جب ملک بھر میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین احتجاج کے لیے نکلے۔
ایمانوئل میکرون کے فرانس میں دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے بعد یہ اُن کے خلاف سب سے بڑی عوامی احتجاج کی لہر ہے۔برطانیہ کے شاہ چارلس سوم اگلے ہفتے فرانس پہنچ رہے ہیں اور اس دوران فرانسیسی ٹریڈ یونین نے منگل کو ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔شاہ چالس سوم کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ وہ جنوب مغربی شہر بورڈو کا بھی دورہ کریں گے جہاں جمعرات کو مظاہرین نے سٹی ہال کے پورچ میں آگ لگائی تھی۔
بدھ کو فرانسیسی صدر کی جانب سے ایک ٹی وی انٹرویو میں اصلاحات واپس لینے سے انکار کے بیان کے بعد جمعرات کو غصے سے بھرے مظاہرین کی بڑی تعداد نے سڑکوں اور گلیوں کا رُخ کیا۔پیرس شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں جہاں اہلکاروں نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا۔
اے ایف پی کے نامہ نگار کے مطابق بعض جگہوں پر مظاہرین نے گلیوں میں کوڑے کو آگ لگائی جس کے بعد فائر فائٹرز کو بجھانے کے لیے آنا پڑا۔
وزیر داخلہ گیرالڈ درمانین نے کہا کہ ملک بھر میں سکیورٹی فورسز کے 150 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 172 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے 72 کو پیرس شہر میں گرفتار کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ پیرس شہر میں 140 مقامات پر آگ لگائی گئی۔ یہ تشدد پیرس آنے والے ’ٹھگوں‘ نے کیا جو ’پولیس اہلکاروں اور سرکاری عمارتوں‘ پر حملہ آور ہوئے۔