پی ٹی آئی کی سرکار جا چکی تھی اور پی ڈی ایم سرکار اقتدار پر براجمان ہوچکی تھی اس وقت بھی ایک کالم کے ذریعے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ممکن ہے سعودی عرب میں موجودہ سفیر امیر خرم راٹھور کو واپس بلا لیا جائے کیونکہ یہی ہماری روایت رہی ہے 2018 سے قبل ایڈمرل ریٹائرڈ خان ھشام بن صدیق ن لیگ کی جانب سے آرمی کوٹے میں سے سعودی عرب کے لئے سفیر نامزد کیے گئے تھے تاہم جیسے ہی حکومت تبدیل ہوئی تو پی ٹی آئی نے انہیں واپس بلا لیا اور انکی جگہ راجہ علی اعجاز کو سفیر تعینات کر دیا گیا مگر کووڈ 19 کے دوران سعودی عرب سے مسافروں کی روانگی اور میتوں کی پاکستان واپسی کے حوالے سے وبال برپا ہوا اور سابق وزیراعظم عمران خان حقائق کے برعکس جاکر اپنے ہی سفارت کار کو سرعام تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں سبکدوش کر دیا اور یوں راجہ علی اعجاز پاکستان روانہ ہوگئے اور انکوائری کا سامنا کیا مگر ان پر کوئی الزام ثابت نا ہوسکا ۔
ان کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیجا گیا مگر محض نو ماہ کے بعد ہی انہیں بھی واپس بلا لیا گیا اور نئے سفیر امیر خرم راٹھور نے ذمے داریاں سنبھال لیں جوکہ صرف چودہ ماہ بعد پاکستان روانہ ہو رہے ہیں یہاں جو سب سے قابل ذکر بات ہے وہ یہ ہے کہ 2018 کے بعد چار سفیر اپنی تین سال کی مدت پوری کیے بغیر ہی واپس روانہ ہوچکے ہیں اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ راجہ علی اعجاز،لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ بلال اکبر اور امیر خرم راٹھور رخصت ہونے کے ساتھ کئی ایک مبینہ تنازعات بھی جڑے ہیں جس سے ایک ایسا تاثر مل رہا ہےکہ جہاں ہمارے دیگر ادارے تباہ ہوچکے ہیں وہیں ہمارا دفتر خارجہ بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے یہاں بھی ملکی سوچ کے حامل افراد کا نا صرف قحط پڑ چکا ہے بلکے سیاسی اور شخصی ایجنڈے پر کام کرنے والے افراد بیٹھے ہیں جو سفارت کاری سے کہیں زیادہ ان کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں جو پاکستان کی سفارت کاری میں رخنہ ڈال سکتے ہیں ۔
اس حوالے سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دفتر خارجہ میں ایسے اقدامات کریں جن سے دنیا بھر میں پاکستانی سفارتکار صرف اپنے ذمے کاموں کو انجام دیں اور ملک و قوم کی بہتری کے لئے کام کریں دو طرفہ تعلقات کو بڑھائیں تجارتی اور سرمایہ کاری جیسی سرگرمیوں کو فروغ دیں خاص طور پر ان ممالک میں جن کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ مراسم ہیں جن میں سعودی عرب ہمارا سب سے قریبی دوست ہے جس کے ساتھ ہماری جذباتی اور مذہبی وابستگی ہے جس پر پاکستان کا ہر فرد نظر رکھتا ہے۔
لہٰذا سعودی عرب میں ایسے سفیر تعینات کیے جائیں جن کا ایجنڈا پاک سعودی تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانا ہو جو یہاں پر سب سے زیادہ ستائیس لاکھ پاکستانی ورکرز کے مسائل کو حل کروانے میں معاون ثابت ہو اور جو کمیونٹی کو اپنے ساتھ ملا کر مسائل کو حل کرنے سمیت پاکستان کی تجارت،سرمایہ کاری سمیت اپنے کلچر کو آگے بڑھا سکے اس کے علاوہ ایسے تمام پاکستانی اور سعودی کاروباری افراد کے لئے ورکشاپ اور سمینار کا اہتمام کرواسکے جن کے ذریعے پاکستان میں مختلف سیکٹرز میں سرمایہ محفوظ بنانے کے حوالے سےآگاہی اور رہنمائی شامل ہو خبروں کے مطابق ڈنمارک سے احمد فاروق کو ریاض کے لئے نیا سفیر تعینات کیا گیا ہے اب دیکھنا ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوتے ہیں یا یہاں چند ماہ کے مہمان ہیں ۔۔۔۔۔