جشن آزادی اور ہمارا کردار

0

جشن آزادی پاکستان کے لئے ہمارے بزرگوں نے لازوال قربانیاں پیش کیں اس دوران نہ صرف مال اور جان کی قربانی دی بلکہ اپنی عزتیں بھی وطن عزیز کی آزادی کے لئے قربان کیں،ہماری ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں اور بزرگوں نے نہ صرف اپنے شیر خوار بچوں کو اپنی نظروں کے سامنے دشمن کی تلوار کی نوک پر چڑھتے دیکھا بلکہ آزادی کے دیوانوں کو خود دریا کی لہروں کے سپرد ہوتے دیکھا اس کے باوجود آزادی کے جذبہ کو مانند نہ پڑھنے دیا ۔

بچپن سے ہم جشن آزادی پاکستان کے قصے اور کہانیاں پڑھتے آرہے ہیں ،جشن آزادی کو جوش و جذبے کے ساتھ مناتے آرہے ہیں بلکہ بچپن میں جھنڈیاں خرید کر ان کو آٹا لگا کر لڑیوں میں پرو کر گھروں کو سجاتے اور 14 اگست کے دن دعا کے ساتھ آزادی کے نغموں اور ترانوں کو سنا اور گایا جاتا ،پاکستان زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ،اپنے دوستوں کو مبارکباد پیش کرتے لیکن آج ہم جشن آزادی کو ایک تفریح کے طور پر مناتے ہیں اور فضول سرگرمیوں میں مشغول ہوتے ہیں ناچ گانے کا اہتمام کرتے ہیں جو کہ جشن آزادی کے بلکل مترادف ہے ایک ماہ پہلے میں پاکستان سے واپس سعودی عرب آرہا تھا سوچا جاتے ایئرپورٹ سے پاکستانی جھنڈے والے چھوٹے سائز والے سٹیکر لیئے چلتا ہوں میں نے دکان دار سے پوچھا محترم بھائی جان یہ سٹیکر کتنے کا ہے تو انہوں نے بولا کہ 250 روپے کا ہے،قیمت سنتے ہی ایک دم خاموش ہو گیا اور خیال ہی خیال میں سوچنے لگا کہ کیا میں واقعی پاکستان جھنڈے کا نشان خرید رہا ہوں یا پھر ڈالر خرید رہ ہوں؟ خیر دوبارہ پوچھنے پر پتا چلا کہ پاکستان کے جھنڈے کی علامت ہے

جس کی اصل قیمت آج بھی 15 یا 20 روپے سے زیادہ نہیں ہو سکتی،دوکاندار سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہوئے پوچھا تو صاحب فرمانے لگے کہ ہمیں یہ ایئرپورٹ پر لانے کے لئے بہت ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ مشکل ترین پروسیس سے گزرنا پڑتا ہے ، پھر یہ ہمیں یہاں وصول ہوتے ہیں اسی طرح چند ماہ پہلے سعودی عرب کے شہر جدہ میں انٹرنیشنل ٹریولز اینڈ ٹورزم کا انعقاد ہوا جس میں دنیا بھر سے 32 بڑی سیاحتی کمپنیز نے شرکت کی ،اس میں بڑی غور طلب اور قابل فکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاحت کو فروغ ایک سعودی بھائی نے ڈسکور پاکستان کے نام سے اسٹال لگایا تھا اور وہ بھائی پاکستان کی سیاحت کے حوالے سے دنیا کو معلومات فراہم کر رہا تھا بے شک اللہ پاک نے پاکستان کو بہترین اور لازوال نعمتوں سے نوازا ہے اور ہم ان کی قدر کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔

نہایت ادب کے ساتھ گستاخی کی معافی طلب کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وطن عزیز کے موجودہ حالات کو دیکھ یہ سوچتا ہوں کہ ہم کس طرح اور کس بات پر دوسرے ممالک کے لوگوں کو بولیں کہ وہ پاکستان کی سیر کریں کیوں کہ آج ہم خود وہاں پر غیر محفوظ ہوئے پڑے ہیں ،کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ہر کوئی مرضی کا مالک بنا ہوا ہے ،ان سب مسائل سے نمٹنے کے لئے ہمیں ہجوم کی بجائے ایک قوم بننے کی اشد ترین ضرورت ہے ،ہمارے قومی اداروں کو چاہیے کہ وہ انا سے نکل وطن کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں قانون کی بالادستی ہو ہر عام و خاص کے لئے قانون برابر ہو ،دشمن نہیں دوست پیدا کریں ،بے شک پاکستان تحفے میں نہیں بلکہ بے پناہ قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا ،اس جشن آزادی کے موقع پر تحریک آزادی کے شہیدوں کو اپنی دعا میں یاد رکھیں اور اپنے حصے کی شمع جلا کر پاکستان کو روشن کریں۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین

جب تلک بھی میری پلکوں پہ دیے روشن ھیں
اپنی نگری میں اندھیرا نہیں ھونے دوں گا

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!