عربوں کے محمد اقبال

0

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر

محمد اقبال حالیہ صدی میں مسلم دنیا کا ایک بڑا نام ہے، جو نہ صرف شاعر، پروفیسر، ڈاکٹر، مصنف، خطیب، ماہر تعلیم، مفکر، فلسفی، سیاسی مدبر و رہنما، ماہر لغات ہیں بلکہ مسلم نشاۃ ثانیہ کے مشعل بردار اور عملی جدوجہد کرنے والے تھے۔ ساری زندگی مسلمانوں کے سیاسی تشخص کے لیے کوشاں رہے۔ انکی مساعی مخلصہ ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہو کر سرگرام عمل پیہم رہی۔، وہ حالیہ صدی میں مسلم سیاسی مفکر مدبر اور رہنما ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے سیاسی تشخص کی پکار کرنے پہ صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ انہیں پاکستان کا قومی شاعر اور دو قومی نظریہ کا محرک کہا جاتا ہے، جو ریاست پاکستان کے قیام اور اس کے موجودہ تشخص و ہئیت کی بنیادی اساس ہے۔

علامہ محمد اقبال کی سالگرہ یعنی 9 نومبر، ہماری یادوں کو محمد اقبال کے افکار و نظریات سے سرشار کرتے ہوئے مسلمانوں کے خون گرماتی اور آمادہ بر عمل کرتی ہے۔ ان کی پوری شاعرانہ تعلی مسلمانوں کو اپنے اساسی حق کے لیے کھڑے ہونے کی دعوت دے رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے یعنی اسلامی نظریہ کی اساس و اکائی دوبارہ متحد ہونے کا درس دیتی ہے جو کہ مسلمانوں کو ایک گرہ کے ساتھ باندھا۔ پکارا اور پہچانا جاسکتا ہے۔ وہ گرہ دراصل اسلام ہے جو اس کے ماننے والوں کو ایک لڑی میں پرو کر جوڑ سکتی ہے۔ یہ گرہ اسلام تمام مسلمانوں کو ایک قطار میں صف آرا کر سکتی ہے۔

عربوں کے اقبال کے حوالے سے یہ بات لائق توجہ ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں جا بجا عرب شعرآ کا ذکر کیا۔ انکے نام، انکی اصطلاحات، تلمیحات، تعلیات اور استعارے مستعار کئے۔ محمد اقبال نے اپنے کلام میں دانائے عرب کو مخاطب کرتے ہوئے دعوت فکر و عمل دیتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے ذاتی طور پر دو مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ ایک مصر اور دوسرا فلسطین، مصر کے صدر جناب فاروق کو ایک خط بھی لکھا، اورینٹل کالج میں عربی پڑھاتے تھے اور لندن میں قدیم عربی شاعری پڑھاتے رہے۔ ان کی یادداشت میں عربی دیوان اور اشعار کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

انہوں نے فلسطین میں ایک کانفرنس میں حصہ لیا اور لاہور میں ایک بین الاقوامی مسلم کانفرنس کی سربراہی کی۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے عربی زبان کی تعلیم و تدریس پر بار بار پیغام دیتے ہوئے زور دیا۔ انہوں نے پورے دلائل کے ساتھ عربوں کو ایک نام، ایک پہچان، ایک نشان، ایک فکر، ایک شخصیت کے ساتھ صرف اور صرف ایک شخصیت کے ساتھ متحد ہونے پر زور دیا۔ جیسا کہ اس نے کہا:

کرے يہ کافر ہندي بھي جرات گفتار
اگر نہ ہو امرائے عرب کي بے ادبي!

يہ نکتہ پہلے سکھايا گيا کس امت کو؟
وصال مصطفوي ، افتراق بولہبي!

نہيں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمد عربي سے ہے عالم عربي

وہ مسلمانوں کی سیاسی تشخص کے حصول کی ناکامی پہ پریشاں ہوتے اور پھر ان کی کمزوریوں اور تنازعات اور اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے حل پیش کرتے ہیں۔ س کے ساتھ ساتھ وہ اس نقصان کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے مغرب نے سازشیں اور جنگیں طشت ازبام کرتے ہیں کہ کیسے کیسے ہتھکنڈوں سے مسلم وجود کو لخت لخت اور لہو لہو کیا اور کیسے پارہ پارہ کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال پھر مسلم خون گرما کر اسے آسائش و نمائش۔ طاؤس و رباب سے بالا کرکے صرف اور صرف ملت اسلامیہ کے عالمی سیاسی تشخص کی بحالی کے آمادیہ کرتے ہو فرماتے ہیں کہ

کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز

لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاک حجاز
ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز
لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس
وہ مۂ سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
گفت رومی ”ہر بناے کہنہ کآباداں کنند”
می ندانی ”اول آں بنیاد را ویراں کنند”

انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کی بحالی اور ملت اسلامیہ کی نگاہ ثانیہ کے لئے اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ وجدان کی بنیاد پہ اپنے درد کو بیان کرکے اس کا درماں کا ذکر فرماتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کا شاندار ماضی کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔ وہ زندگی بھر اس مقصد کے کاوش کرتے رہے اور انھوں نے بلا خوف و خطر اس مقصد کے لیے جدوجہد کی جیسا کہ انھوں نے کہا:

مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں
اگرچہ ميں نہ سپاہي ہوں نے امير جنود
مجھے خبر نہيں يہ شاعري ہے يا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود
جبين بندہ حق ميں نمود ہے جس کي
اسي جلال سے لبريز ہے ضمير وجود
يہ کافري تو نہيں ، کافري سے کم بھي نہيں
کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود
غميں نہ ہو کہ بہت دور ہيں ابھي باقي
نئے ستاروں سے خالي نہيں سپہر کبود

مسلم نشاۃ ثانیہ کے لیے محمد اقبال کے ان افکار نے انھیں عالمی مفکر مدبر کا رتبہ عطا کیا ہے۔ محمد اقبال کو کسی بھی صورت میں محدود۔ مقید اور محصر نہیں کیا جاسکتا۔ محمد اقبال پاکستان کا ہو یا برصغیر کا، محمد اقبال لاہور کا ہو یا ایران کا، حمد اقبال عشق والوں کا ہو یا عقل والوں کا، وہ مشرق کا ہو یا ترقی پسندوں کا، وہ عالمی ہے اور یہاں وہ پورے عرب میں معروف ہے۔ اس لیے یہاں ہم عربوں کے محمد اقبال کے نام سے پکارتے ہیں، کیوں کہ وہ مسلمانوں کی شان میں کلیدی کردار ادا کرنے والے بن گئے۔ عربوں نے ان کے عالمی افکار اور مسلمانوں کے لئے انکی فکر برائے اتحاد امت، سیاسی تشخص کے نظریات پہ مبنی کاوش کی بنا پہ ان کی قدردانی کی اور انہوں نے محمد اقبال کے افکار، نظریات، کتابوں، شاعری، شخصیت اور پیغام پر درجنوں کتابیں، سینکڑوں مقالے اور ہزاروں تقاریر لکھیں، جن میں سے کچھ یہاں بیان کی گئی ہیں۔ عظیم محمد اقبال نے دو مرتبہ عرب دنیا کا دورہ کیا، سب سے پہلے 1905 میں بندرگاہ عدن اور بندرگاہ سعید گئے جب وہ انگلستان جا رہے تھے جیسا کہ مصری ادیب جناب سعید عبدالحمید نے کہا۔ اور دوبارہ 1931 میں جناب عبد الوہاب حزام، سفارت کار (جو بعد میں مصر کے سفیر بن کے پاکستان رہے) خطیب، مترجم، انہوں نے 1931 میں اپنے استاد عبدالوہاب نجار کے حکم کی تعمیل میں فلسطین میں منعقدہ اسلامی کانفرنس میں محمد اقبال کا تعارف پیش کیا اور یہ عربوں میں عظیم محمد اقبال کے پیغام کے اثر کا آغاز تھا۔ جس میں حزام نے عربی میں اقبال کی شاعری کا ترجمہ عربوں کے سامنے عربی زبان میں کیا۔ انہوں نے اقبال کے کام/کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا، "درویش اقبال” کے نام سے ہفتہ وار نشست شروع کی۔ جب وہ بطور سفیر پاکستان میں تھے۔

کلام اقبال اور افکار اقبال کا ترجمہ عربی میں "اللمعات” کے نام سے شائع ہوا ہے۔ انہوں نے محمد اقبال کے پیغامات کو اجاگر کرتے ہوئے بہت سے مقالے لکھے۔ ایک سعودی تحقیقی جریدہ المنہل میں کئی مضامین لکھے۔ 1951ء میں معروف عالم جناب ابو الحسن ندوی نے ’’الانسان الکامل فی نظر اقبال‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی اور عربی میں ترجمہ کر کے اسے دمشق میں روائع اقبال کے نام سے شائع کیا۔ حال ہی میں ایک شامی اسکالر جناب زہیر زغاغاہ نے محمد اقبال کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ہے جسے الجزیرہ ٹی وی نے اجاگر کیا ہے۔ مصر سے تعلق رکھنے والے ایک اور عالم جناب صاوی الشعلان نے مشہور کلام اقبال جس کا نام شکوہ اور جواب شکوہ ہے اور اسے حدیث الروح کے نام سے ترجمہ کرکے شائع کیا گیا ہے اور اس (گیت) کو عرب دنیا کی مشہور گلوکارہ ام کلثوم نے 1967 میں ایک بڑے عوامی شو میں اپنی آواز میں ایسے اعلی سوز و گداز کے ساتھ گایا کہ ہر کسی کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر آئی۔ اس کے علاوہ یہاں سے دیگر علماء جیسے جناب مولانا علی میاں، جناب عمر بہاالدین امیری، جناب ثمر روحی اور جناب فیصل شام قابل ذکر ہیں، مزید یہ کہ ڈاکٹر حسن الاعظمی نے فلسفہ اقبال و الثقافہ الاسلامیہ فی الہند و الباکستان تصنیف کی اور مصری اسکالر ڈاکٹر طحہ حسین نے اقبال کے نام سے ایک مقالہ لکھا، جناب نجیب الکیلانی نے الشاعر الثائر کے نام سے کتاب کی تصنیف کی۔ حسین نجیب نے اقبال بین المصلحین الاسلامین اور اقبال العالمی عربی کے نام سے کتاب تصنیف کی اور اس کے علاوہ جناب مہدی حمود فلوجی نے اقبال شاعر اور مفکر کے نام سے کتاب کی تصنیف کی اور شیخ علی طنطوی، شیخ المرقی (سابق رئیس جامعہ الازہر الشریف) اور عباس محمود العقاد،جناب حازم محمود احمد نے محمد اقبال المصلح الشاعر الاسلامیہ الکبیر کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی، جناب محمد السعید نے جاوید نامہ لشاعر محمد اقبال کے نام سے کتاب تصنیف کی، محقق احمد حسن نے تحیہ لزکری اقبال، معروف مصری دانشور محمد حسین ہیکل نے اقبال الشاعر الاسلام کی تصنیف کی، عباس محمود نے محمد اقبال کے خطبات کا ترجمہ تجدید التفکیر الدینی فی السلام کے نام سے کیا، اور سکالر فتحی رضوان نے اقبال الفلسوف کے نام سے لکھا، عثمان امین نے کتاب تصنیف کی برعنوان رسالہ محمد اقبال، ڈاکٹر احمد الشربانی نے تصنیف کی۔ شاعر السلام الاکبر اور ڈاکٹر سلمان حازم نے زکری اقبال کی تصنیف اور حسن عیسیٰ الظہر نے تصنیف محمد اقبال الداعیہ الاسلامی المجدد اور ڈاکٹر عبدالودود الشبلی نے تصنیف محمد اقبال اور ڈاکٹر خالد عباس الاسدی نے تصنیف محمد اقبال قصائد مختار ودراسات اور محمد حسن حنفی نے تصنیف کی۔

محمد اقبال الفلیسوف الزاتیہ اور بے شمار کتابیں، مصنفین، تحقیقی مقالے، بہت سارے عرب اسکالرز کے تحقیقی مکتوبات ہیں جیسے عراق سے ڈاکٹر جلیل عبد الجلیل، الشما الدمریش العقلی، مغرب سے عادل العالی المتقی، ڈاکٹر صلاح، بہا الدین نے شام سے ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی، بحرین سے ڈاکٹر مراد اور بہت کچھ۔ عبدالوہاب حازم نے 1936 میں عربوں کا محمد اقبال بنانے کا جو مرحلہ شروع کیا تھا وہ ابھی تک جاری ہے کیونکہ عربوں کا ہر قریہ وقتاً فوقتاً یہی کہتا ہے کہ عرب کا محمد اقبال ہے۔ ان کا پیغام اور خیالات آج بھی دلوں میں جگہ پا رہے ہیں اور دلوں کو جیت رہے ہیں۔ یہ ان کے افکار پر غور کرنے اور مسلمانوں کے سیاسی تشخص کو بلند کرنے کے لیے ہماری توانائی کو متحرک کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جس کی خواہش عظیم محمد اقبال کی تھی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!