پاک سعودی دوستی زندہ باد

0

گزشتہ دو تین روز سے میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے کچھ چینل اور ویب سائٹ اور کچھ ایسے نام نہاد دانشور جن کو نہ ہم نے کبھی سنا نہ کسی جریدے میں چھپتا ہوا دیکھا وہ سعودی عرب کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرتے ہیں انہیں یہ بڑی تکلیف ہے کہ سعودی عرب بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اور اس میں سے وہ چند ایک واقعات کو لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خدانخواستہ سعودی عرب مغرب سے آگے نکل جائے گا 2030 کا ویژن میں نے بھی پڑھا ہے، شہزادہ محمد بن سلمان اس بارے میں بڑی پرجوش تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئندہ پانچ دس سال میں سعودی عرب یورپ کا مقابلہ کرے گا یار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ صرف فحاشی کا نام ہے لیکن انہیں نہیں پتہ کہ ٹیکنالوجی میں یورپ ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے بھی عالم اسلام کے حکمرانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں یونیورسٹیاں قائم کرنی چاہئیں، ہمیں ٹیکنالوجی کے ادارے قائم کرنا چا ہئیں۔

یہی چیز محمد بن سلمان کہتے ہیں ایک تو چینل ایسے ہیں جس کی میں نے تحقیق کی ہے، اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات اب بہتر ہو چکے ہیں اور سعودی عرب نے ترکی سے بھی تعلقات کو بہتر کر لیا ہے اب ان کی فنڈنگ مجروح ہو رہی ہے اس عمل سے ان لوگوں کو ایران سے کوئی پیسہ نہیں مل رہا ہےمثلاً ایک صاحب ہے ان کا نام ہے علی اور وہ لگے ہوئے ہیں اس بات پہ سعودی عرب ف** کی جانب بڑھ رہا ہے سعودی عرب ایسا کر رہا ہے ویسا کر رہا ہے وہ مسلمانوں کے اوپر پابندیاں لگا رہا ہے وہ فلاں کام کر رہا ہے اب اس بے وقوف کو کوئی یہ تو سمجھائے کہ کہ سعودی عرب مختلف شعبوں میں ترقی کر رہا ہے کچھ چینل اب تک اسی ڈگر پہ چل رہے ہیں کہ ہم نے جو کچھ بھی کرنا ہے اور جو کچھ زہر پھیلانا ہے وہ سعودی عرب کے خلاف پھیلانا ہے ان کو یہ نہیں پتہ کہ مملکت خداداد سعودی عرب ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا بہت آگے جا چکا ہے۔

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو خراب کیا جائے میں نے پاکستانی نژاد سعودی خاتون سمیرہ عزیز جو وہاں کی جرنلسٹ ہیں اور بہت کامیاب کاروباری خاتون ہیں اور جنہیں میں گزشتہ تقریباً 20 سال سے جانتا ہوں اپنے گزشتہ سعودی عرب کے دورے کے دوران میں ان کے ساتھ کافی انگیج رہا ،وہاں کے دانشوروں کے ساتھ فنکاروں اور شاعروں کے ساتھ میٹنگز کی اور وہاں پہ ایک بہت ہی باوقار تقریب کا انعقاد بھی کیا جو میں نے سعودی عرب کے سابق عسکری ذمہ داروں کو بلایا اس تقریب کو پاکستانی کمیونٹی میں برسوں یاد رکھا جائے گا اگر اسے سب سے بڑی موثر تقریب کہا جائے تو کم نہ ہوگا کیونکہ وہاں کے زیادہ تر پاکستانی آپس میں ہوٹلوں پہ بیٹھ کے اپنی خوشی غم کی تقریب کرتے ہیں یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ جو تقریب تھی اس میں تین سابق جرنیل موجود تھے فنکاروں کی بڑی تعداد شاعر، ادیب جو ہندوستانی نژاد اور پاکستانی نثراد بھی تھے وہ بھی شریک محفل ہوئے،سب سے بڑی بات ہے کہ سب نے عربی میں تقریریں کی اور میں نے بھی عربی میں تقریر کی الحمدللہ کیونکہ اس ملک میں 20، 25 سال میں نے گزارے تھے اور وہ بھی کسٹمر ہینڈلنگ پہ گزرے اور اس میں جو پرسن ٹو پرسن ہم لوگوں کا ساتھ سمیرا عزیز نے کردار ادا کیا ہم ان کے شکر گزار ہیں ۔

ان کے پروٹوکال منیجر حسن شوربجی نے کام کیا میں ان کا بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں یہ لوگ مجھے سعودی عرب کی باوقار شخصیت تک لے گئے، اس میں میرے دوست ملک محی الدین اور خالد رشید بھی ساتھ ساتھ رہے ،وہاں خالد المعینا جو نامور دانشور اور صحافی رہے ہیں ،انہوں نے پاک سعودی تعلقات کے اوپر بڑی روشنی ڈالی یہ وہ واحد سعودی ہیں جو عرب نیوز کے ایڈیٹر بھی رہے اور کسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں انہوں نے تعلیم بھی حاصل کی یہ عمران خان کے مداح بھی ہیں اور دوست بھی تو ان لوگوں نے پاکستان کے لیے ایک ایسا حلقہ بنا لیا جس میں الحمدللہ میری کوشش بھی شامل تھی ۔

کوشش تھی کہ ہم پاکستانیوں سے نکل کے سعودیوں سے میل ملاقات کریں ،ایک دو تقریبات اور بھی ہوئیں جن کی تصاویر اگر میرے پاس ہوئی تو میں ضرور شیئر کروں گا لیکن آج کا کالم میں یہ چاہوں گا کہ جو قوتیں سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کو خراب کرنا چاہتی ہیں ان لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ یہ پاکستان کی معیشت کو کاری ضرب لگانا چاہتی ہیں چھوڑ دیں اس بات کو مڈل ایسٹ سے آپ کا جو بھی ذر مبادلہ آرہا ہے، اس میں سعودی عرب اور ابو ظہبی دبئی اور ان جیسی ریاستوں کا بڑا حصہ ہے آپ یہ جان کے حیران ہوں گے کہ سعودی عرب اور دیگر ملکوں میں جس تیزی کے ساتھ پاکستانی جا رہے ہیں پاکستان کے ایجنسی کے پاس پاسپورٹ کا وہ کاغذ بھی ختم ہو گیا اور ارجنٹ بیسز پہ بننے والے پاسپورٹوں کے بارے میں آج سنا ہےکہ وہ نہیں دیے جا سکتے اس لیے ان کی ارجنٹ فیس واپس کی جائے کیا یہ ارجنٹ فیس واپس کرنے سے حالات بدل جائیں گے کسی صورت میں بھی ایسا نہیں ہو سکتا ۔

پاکستان اپنے ملک سے باہر بھیجنے والے ایجنٹ حضرات کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جو اس ملک کے نوجوانوں کو باہر کے ملکوں میں بھیج رہے ہیں اگرچہ ہمارے مزدور تھوڑی سی کوشش کر کے سکلڈ لیبر بن کے جا سکتے ہیں حکومت اس سلسلے میں کوشش تو کر رہی ہے اور میں یہ چاہوں گا کہ پاکستان میں ٹیکنیکل اداروں کی بہتات ہونی چاہیے، میں نے اپنی حکومت کو دوران ایک پروگرام بھی دیا تھا کہ جو بینک اور بیرون ملک پاکستانیوں کے درمیان سستے قرضہ جات پر ان کو باہر کے ملکوں میں لے جائیں اور اس سلسلے میں وہاں کے لیبر کونسلر وہاں کی کمیونٹی ان کا ہاتھ بٹائے افسوس کہ اس قسم کے پروگرام کو کسی نے پڑھا بھی نہیں اور اس کے اوپر غور بھی نہیں کیا جو اتنا بڑا پروگرام تھا ۔

پروگرام یہ تھا کہ بیرون ملک سے جتنی بھی ڈیمانڈ آئے وہ اپروو کمپنیوں کے ذریعے آئے یا وہاں کے لیبر کونسلر وہاں پہ جائیں یا وہاں کی جو پاکستانی کمیونٹی ہے وہ ڈیمانڈ بھیجیں اور ہم غریب لوگوں کو سستے قرضے دے کر اخوت کے تھرو قرضے دے کر باہر بھیجیں اور ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ یہ کریں کہ آپ ان مزدوروں کے اوپر جو آپ نے خرچ کیا ہے اس کو 12 مہینوں کے اندر واپس لیں اس سے کیا ہوگا کہ ان پاکستانیوں کی عزت نفس کو کوئی آنچ نہیں آئے گی یہاں ہمارا جو معاشرہ ہے اس میں اگر کسی نہ کسی کا کام کر دیا ہے تو پوری زندگی اس کے خاندان کو اس کا احسان مند رہنا پڑے گا اور خود ہی مجروح ہوگی یہ بات بڑی سمجھنے کی ہے تو آج کا کالم اگر میں موضوع سے ہٹ نہ جاؤں تو صرف یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان چینل سے ان سو کالڈ صحافیوں سے جن کو دوسری مرتبہ اپنے گھر میں کوئی سالن نہیں دیتا ان لوگوں نے پاکستان کو بد نام کر رکھا ہے، سمیرہ عزیز سے میری بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی ہے انہوں نے کہا ہے کہ میں پاکستان کے لیے کام کرنا چاہتی تھی اور کمنٹ میں ان پاکستانیوں نے میرے ساتھ وہ برا سلوک کیا ہے اور ایک خاتون ہونے کے ناطے انہوں نے یہ بتایا ہے کہ افتخار بھائی گندے کمنٹ بھی کیے گئے تصویریں بھیجی گئی اور مجھے پتہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں اب گندی صحافت کے نام کے اوپر میں کچھ زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا ۔

کوئی دو سال پہلے ہمارے گاؤں کا ایک بندہ وہاں پہ فوت ہو گیا تھا اس کو لانے میں سفارت خانہ نے بڑا اچھا کام کیا یہ الگ بات ہے کہ راجہ اعجاز اس کے بعد پاکستان واپس بلا لیے گئے کیونکہ کچھ لوگوں اور وہاں کے صحافیوں نے ان کے خلاف بڑی ایک مہم چلا رکھی تھی بہرحال ان موضوعات پر تو پھر کبھی بات ہوگی لیکن خدا کے لیے میری آپ سے درخواست ہے کہ ہمیں سعودی عرب کو ایک مختلف نظر سے دیکھنا چاہیے یہ وہ کنٹری ہے اس میں میرے جیسے فرد نے حلال کمائی کی، اپنے خاندان کو اونچا کیا، کچے مکانوں سے بہترین گھروں تک پہنچے، نہ صرف اپنی اولاد بلکہ اپنے خاندان کو اوپر لے گئے، والدین کو حج کرائے، بھائیوں کی شادیاں کیں،ان کی تعلیم مکمل کی، اپنے بچوں کو وہاں پہ پڑھایا، قر آن وہاں سے کرایا۔

میں سلام پیش کرتا ہوں ارض حرمین کو اور خادم حرمین شریفین سلیمان بن عبدالعزیز کی حکومت رشیدہ کو بہت زیادہ سلام باقی ہم لکھیں گے اور لکھتے رہیں گے بغیر کسی لالچ کے بغیر کسی غرض و غایت کے کیونکہ ہمارے اوپر بھی حق پہنچتا ہے کہ اس مٹی کا قرض اتاریں اور وہ قرض یہ ہے کہ وہاں کے نظام عدل کو سلوٹ پیش کرتے ہوئے اپنے 25، 30 لاکھ پاکستانیوں کو اتنے پیار سے رکھنے پر ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

پاک سعودی دوستی زندہ باد

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!