قائد اعظم محمد علی جناح کی قوم اورفلسطین

0

مت سہل انہیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے۔

کسے معلوم تھا کہ 14 سو سال پہلے فاران کی چوٹیوں سے آنے والی صدا عالم انسانیت کے لیے ایک بار پھر اس کرہ ارضی پر نظریاتی مملکت کا ظہور دے گی۔
وہ صحیح معنوں میں مشرق کے اقبال کی فکر سے منعکس ہوگی اور فاران کی چوٹیوں کی صدا کا معنوی بیٹا وہ عظمت جلیلہ رکھے گا کہ کوئی تو اسے ایشیا کا سب سے اہم آدمی کے نام سے پکارے گا اور کوئی اس کو اس صدی میں ایک شاندار شخصیت کا خطاب دے گا۔ کوئی اسے اسلامی دنیا کے عظیم رہنماؤں میں سے ایک قرار دےگا اور وہ شخص برصغیر پاک و ہند میں آزادی اور حریت کانفرنس استعارہ بن کر ایک جاندار شخصیت کا روپ دھارتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہلائے گا۔ آزادی کا وکیل کہلائے گا۔ کہ وہ زبان حال سے خود پکارے گا کہ وہ ایک وکیل کے طور پر عظیم تھا۔ ایک بار کانگرس کے رکن کے طور پر ۔ پھر ایک مسلم رہنما کے طور پر۔ پھر ایک عالمی سیاستدان کے روپ میں ۔ پھر ایک سفارت کار کے روپ۔ میں پھر ایک عملی زندگی کے عملی انسان کے روپ میں عزم مصمم کے ساتھ نصب العین کی ایسا مالا چپنے والا کہ جسے لوگ جناح کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بانی پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بابائے قوم، بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کو مشیت ایزدی سے وجود تاباں دینے والا۔ اقر وہ اس کی خاطر جدوجہد کر ے والوں کو حیات دینے والا ۔ وہ فلسفی۔ رہنما وہ عظیم نیر تاباں وہ بتل جلیل وہ بطل حریت وہ عظیم انسان کہ اس کا پیغام اس کے کارناموں سے ہمیشہ جگمگاتے ہو رہنمائی فراہم کرتارہے گا۔

1905 میں برصغیر پاک و ہند کی سیاسی پارٹی کانگرس کو جوائن کرتے ہوئے اس نے ایک عملی و علمی بھرپور جان دار سیاسی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے 42 سے 43 سال کا سفر شرر فشاں ستارے کی مانند کیا۔
وہ ہر لحاظ سے ایک وجہی ۔ دلکش۔ باوقار۔ بارعب باکردار اور کثیر الجہت شخص تھے کہ جن کی کامیابیوں کا تناسب تمام شعبوں میں بہت زیادہ ہے۔

درحقیقت اس کے بہت سے کردار ہیں جو اس نے بھرپور امتیازات کے ساتھ ادا کیے۔ وہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہندوستان کے پیدا ہونے والے سب سے بڑے قانونی چراغوں میں سے ایک چراغ تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ ایک عظیم ائین ساز تھے ۔ ایک ممتاز پارلیمنٹیرین تھے ۔ پہلے درجے کے سیاستدان تھے ۔ ازادی پسند اور حریت رہنما تھے۔ ایک متحرک مسلم رہنما تھے۔ ایک جاندار سیاسی حکمت عملی کا مینارہ نور تھے اور ان سب سے بڑھ کر کہ وہ جدید دور میں ان عظیم لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے بلند کردار ۔ دوراندیشی ۔ نظم و ضبط۔ پختہ یقین ۔ ٹیم ورک۔ مضبوط موقف رکھنے والی۔عمدہ اخلاق۔ انتھک محنت کرنے والی اور عملی ۔ کردار سے شخصیت تھے کہ ان اوصاف کی بدولت اپنی عظمت پائی کہ وہ ان معدودے عالمی رہنماؤں میں سے ایک شمار کیے جاتے ہیں کہ جن کی غیر متزلزل اور ولولہ انگیز قیادت نے کمزور اقلیت لوگوں کو ایک جاندار متحرک کردار کی بدلتے ہو ایک جاندار مملکت عطا فرمائی ۔ ایسے کہ انگشت بدنداں ہے ۔
ناطقہ سربگرباں ہے کہ اسے کیا کہیے۔
وہ جنوبی ایشیا میں 43 سال کی ایک بھرپور سال سیاسی زندگی گزارنے والا عظیم وجود 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پونجا جناح کے ہاں متولد ہوا۔ سندھ مدرسۃ الاسلام سے ہوتا ہوا لنکنز ان کے ٹھہراؤ کے بعد ممبئی میں آ کر اپنی عملی زندگی کا اغاز بطور وکیل کرتا ہے اور وہ شاید برصغیر کا انتہائی کم عمر وکیل تھا جس کو مسلسل تین سال بار والے بلاتے رہے۔
وکالت کے شعبے میں اس کی خدمات اور اس کا بہترین انداز ۔ دلائل کی کاٹ اور دماغ کو قائل کر لینے والے فن نے اسے ممتاز کر دیا۔ وہ اپنی سیاسی زندگی کے اغاز ہی میں متاثر کن کردار کی بنا پہ گھوکلے سے ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کا خطاب پاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پہ ایک کامل اداب۔ متاثر کن شکل اور جدلیاتی تقضوں سے لیس سیاستدان بہت ذہین اور حکمت والا ہ جانا گیا کہ اس جیسے بندے کو ملک کے معاملات سنبھالنے کا موقع ملنا چاہیے ۔

اس نے بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی زمام کار اس وقت سنبھالی، وہ ان کی کشتی کا، اس ناؤ کا اس وقت ناخدا بنا جب یہ علاقائی، گروہی ،لسانی، مذہبی، مجبوری، بے کسی۔ منتشر وجود۔ ہجوم آمیز اور انفرادیت کا شکار مسلمان لخت لخت تھے جن کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور وہ بر صغیر پاک و ہند میں انتہائی غیر منظم روپ دھارے ہوئے اقلیت میں تھے کہ جناح جیسی ولولہ انگیز اور حریت پسند شخصیت نے ان کی کفیات و ہئیت ملی کو بدل رکھ دیا۔ کہ وہ بس ایک ہی پکار رکھتے تھے۔
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ

لے کے رہیں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
1917 میں عملی سیاست کا آغاز ہی مین اس کے اعلیٰ فہم وفراست واکے کردار نے اسے بام عروج دے دیا۔ 1919 کے ایکٹ میں مسلمانوں کے لیے الگ ووٹوں کا کوٹا مقرر کروا لیا۔ مرکز اور اقلیت کی صوبوں میں ان کو مناسب اور بھرپور نمائندگی کا حق لے کر دیا۔ جناح نے ایک منظم، ترقی اعتدال پسند اور تدریجی اور ائین سازی کی وکالت کرتے ہوئے ان منتشر ہجوم کے لوگوں کو ایک قوم میں بدل دیا اور وہ کہا کرتا تھا کہ آزادی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں اور کوئی بھی ماورائے ائین طریقہ ہندوستان کو ازادی کی دہلیز کے قریب نہیں لا سکتا۔ وہ صرف سیاسی تشدد اور افراتفری کا باعث بن سکتا ہے اور پھر اس نے وہ کر دکھایا کہ بغیر کسی تشدد کے اور کوئی بھی قدم ماورائے ائین نہ اٹھاتے ہوئے اپنی جدوجہد کو انتہائی اخلاقی، سیاسی راستے پہ چلاتے ہوئے وہ اس مقام تک لے آیا کہ جس کا اقبال نے 1930 میں خطبہ الہ اباد میں نقشہ کھینچا تھا۔

برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمان غیر منظم تھے اس وقت بھی جناح کو سہارا اور واحد سکون گاہ اس کی اقبال کے افکار اور رہنمائی میں تھی۔ وہ شاعر، وہ مفکر اسلام ،وہ ملت اسلامیہ کا نشاط ثانیہ کا علمبردار بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا واحد رہنما جناح کو قرار دیتا ہے اور جناح کی فکری آبیاری کرتا ہے اور جناح پھر اس کے اس خیال کو حق کر دکھاتا ہے کہ جب اس نے 1940 میں اسی منتشر قوم کو ایک لڑی میں ،ایک نظریے میں، ایک سوچ میں اور ایک منزل کے نصب العین کے ساتھ باندھ دیا۔ وہی قوم جس کا کوئی نظریہ ،سوچ ،سیاسی پختگی اور نظم اور نصب العین نہ تھا۔ وہی قوم اب ایک خاص نظریے سوچ اور مقصد کو نصب العین اپنا حرز جاں بنا کر اس کے ساتھ شامل حال ہو کر تن من دھن کی بازی لگائے بیٹھ گئی۔

جناح نے وفاقی نظام کے خاتمے کی وکالت کی کیونکہ مکمل ذمہ دار حکومت ہندوستان کے پسندیدہ مقاصد کے خلاف تھی اور جناح جیسی متحرک قیادت کے تحت عوامی تنظیم اس انداز میں منظم ہوئی کہ پھر جناح کی انہی کوششوں سے مسلمان بیدار ہوئے تو پھر جناح نے اپنا شہرہ افاق خطبہ فاران کی چوٹیوں سے اٹھنے والی صدا کو ایک بار پھر مختلف الفاظ میں دہراتے ہوئے جناح نے23 مارچ 1940 کو لاہور میں کہا کہ ہم ایک قوم ہیں، بلکہ جناح کے بڑے واضح اور بلیغ اور فصیح الفاظ کا دعوی تھا کہ ہم اپنی مخصوص ثقافت، اپنی تہذیب، اپنی زبان ،اپنا ادب، اپنا فن، اپنا فن تعمیر ،اپنے نام، اپنی عہدے، اپنی طرز معاش معاشرت حامل لوگ ہیں۔ ہماری اقدار، ہمارا حسب نسب، ہمارا قانون، ہمارے اخلاقی ضابطے ،ہمارے رسم و رواج اور کیلنڈر اور تاریخ اور روایات صلاحیتیں ،عزائم، مختصر یہ کہ زندگی اور زندگی کے بارے میں ہمارا اپنا مخصوص نظریہ ہے اور بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ہم ایک قوم ہیں۔

1940 میں جناح نے اسی منتشر قوم کو ایک منظم قوم کی شکل دی۔ غیر مقصد والی قوم کو مقصد حیات دیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کو اس ایک خاص نصب العین کے ساتھ بر صغیر پاک و ہند کی مسلمانوں کی سب سے زیادہ ممتاز، مقبول ، مضبوط سیاسی تنظیم بنایا کہ اسی سفر پر اسی پالیسی کو لیتے ہوئے 1947 میں جناح ایک قوم ایک ملک اور ایک تاریخ بنانے میں کامیاب ہوا۔

اس سفر کے دوران بے شمار مشکلات ائیں، بے شمار مرحلے ائے، آندھیاں چلی ،طوفان ائے ، جھکڑ چلے، گھٹائیں آئیں، بارشیں ہوئیں، لیکن جناح کو کوئی رکاوٹ، کوئی مشکل، کوئی اندھی، کوئی طوفان ، کوئی جھکڑ، کوئی سیلاب اس کو اس کی منزل سے متزلزل نہ کر سکا، دور نہ کر سکا۔

کوئی لالچ، خوف، دباؤ۔ دھمکی اسے منزل سے سرمو انحراف نہ کر سکی۔ اس نے راستے کو پڑاو نہیں ڈالا۔ ایک لمحہ کے لئے بھی سستانے کو نہ رکا۔ اور پوری رفتار سے سفر بامنزل جاری رکھا اور منزل بمشیت ایزدی حاصل کرکے رہا۔

کرپس مشن آیا۔ وائسرائے کی بے شمار آفرز آئیں ۔ گاندھی کی لالچ بھری تجاویز ہوئیں۔ کیبنٹ مشن آیا۔ تجاویز آئیں۔ لیکن جناح صرف ایک مقصد وحید پر مصر رہا۔ اور اس کی ولولہ انگیز قیادت، اسے اس منزل تک لے ائی۔ وہ جو فاران کی چوٹیوں سے آنے والی صدا کا مسکن بننے کو بےتاب تھی۔

جیسے فاران کی چوٹیوں سے نکلنے والی صدا اخر کار مدینہ میں ایک عظیم انقلاب بپا کر چکی تھی ۔ وہی صدا جب جناح کی شخصیت کے روپ میں ظہور پذیر ہوئی تو وہ پاکستان کی عملی شکل بن گئی۔

ان مشکلات سے آگے چلتے ہوئے جناح کو 80 لاکھ کے قریب پناہ گزینوں کو سنبھالنا تھا ، دو ریاستوں کے درمیان ایک بہت بڑے فاصلے کے ہوتے ہوئے اس کو ایک قوم کی عملی شکل دینی تھی، اور کشمیر کا جو ریاستی جبر تضاد کی صورت میں رکھا گیا اور جوناگڑھ کو جو مقبوضہ بنا دیا گیا اور حیدر آباد پر جو قبضہ کیا گیا ان سارے مراحل کو بھی دیکھنا تھا اور ایک نئی ریاست کی تعمیر نو اپنی کرشماتی شخصیت کے ساتھ کرنی تھی۔ ان تمام مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے 43 سال کی بھرپور سیاسی زندگی گزارنے والا 72 سالہ جناح صحت کے لحاظ سے دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا اور وہ اپنے لوگوں سے پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں۔ اب آپ کو جلد از جلد تعمیر اور تعمیر کرنی چاہیے جتنا تم کر سکتے ہو۔ رچرڈ سائمنز نے کہا تھا کہ جناح نے پاکستان کی بقا میں کسی بھی دوسرے انسان سے زیادہ بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔ اسی لئے جناح نے تجویز دیتے ہوئے کہا تھا۔

“My advice to you is that you should observe and maintain the highest sense of honour and integrity and serve your people selflessly in every way you can, make your people self-respecting self-confident and self-Reliant.”

جناح ایک بلند معیار، دور اندیش شخصیت کے مالک تھے اور ان کے اندر قیادت کے یہی جوہر دیکھتے ہوئے اقبال نے کہا تھا کہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اور شاید اسی لیے اقبال نے کہا تھا کہ
نگاہ بلند سخن دل نواز جہاں پرسوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لیے

جناح عالمی مسائل اور مسلمانوں کی حالت زار پہ بھر پور نظر رکھتے تھے اور خاص طور پر عالم عرب میں جو برطانیہ نے پودا لگایا اس کے بارے میں مشہور زمانہ الفاظ ہیں۔
Israel is an ill legitimate child of the west, we won’t recognize Israel

اور اس بڑھ کے کہا کہ
Every man and woman of the Muslim world will die before Jewry seizes Jerusalem. I hope the Jews will not succeed in their nefarious designs and I wish Britain and America should keep their hands off and then I will see how the Jews conquer Jerusalem. The Jews, over half-a-million, have already been accommodated in Jerusalem against the wishes of the people. May I know which other country has accommodated them? If domination and exploitation are carried now, there will be no peace and end of wars.

قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ نے 1948 فروری میں امریکہ کے شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

“We do not cherish aggressive designs against any country or nation. We believe in the principle of honesty and fair play in national and international dealings, and are prepared to make our contribution to the promotion of peace and prosperity among the nation of the world. But Pakistan will never be found lacking in extending its material and moral support to the oppressed and suppressed people of the world and in upholding the principles of the United Nations Charter”.

اور 25 اکتوبر 1947 کو ایک صحافی کے سوال کے جواب میں فرمایا

“I do still hope that the partition plan will be rejected, otherwise there is bound to be the gravest disaster and unprecedented conflict…the entire Muslim World will revolt against such a decision…Pakistan will have no other course left but to give its fullest support to the Arabs and will do whatever lies in its power to prevent what, in my opinion, is an outrage”.

اور بی بی سی کے نمائندے کو 19 دسمبر 1947 کو رابرٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا

“The Muslims of sub-continent are obviously reluctant to antagonize the United States, or any other country, but our sense of justice obliges us to help the Arab cause in Palestine in every way that is open to us”.

قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم ورلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

“My _ message to our brother Muslim States is one of friendship and goodwill. We are all passing through perilous times. The drama of power politics that is being staged in Palestine, Indonesia and Kashmir should serve an eye opener to us. It is only by putting up a united front that we can make our voice felt in the Counsels of the world.”

آج جب ہم اس عظیم رہنما، بابائے قوم، بانی پاکستان اور ملت اسلامیہ کے اس عظیم رہنما کو یاد کر رہے ہیں۔ تو یہ چیز نہیں بھولنی چاہیے کہ آج ہم کس جگہ پہ کھڑے ہیں کیا قائد کا خواب امت مسلمہ کے لیے اور پاکستان کے لیے اور پاکستانیوں کے لیے ایسا پاکستان تھا کہ جس جگہ سے سو سال پہلے قائد نے اٹھا کر ہمیں ایک قوم اور ایک ملت کے ساتھ پرویا تھا ایک وطن دیا تھا کیا اج ہم اس کے اہل بننے کے قابل ہو پائے ہیں یا پھر وہی درد جو جناح کے اندر طوفان پنہاں ہے وہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے اقبال کی زبان میں کہ

کیا سناتا ہے مجھ کو ترک و عرب کی داستان
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز

حریت ،حریت اور حریت، جناح کے روپ میں فاران کی چوٹیوں سے اٹھنے والی صدا آج بھی ہمارے ماحول کو گرما رہی ہے، پکار رہی ہے کہ کوئی ہے جو اس پہ لبیک کہے۔
کوئی ایک نظم و ضبط۔ نصب العین والی قوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!
[hcaptcha]