خاک نشیں

0

صبح سویرے سورج کی ہلکی پھلکی دھوپ کو تکتے ہوئے خیال آیا کہ ابھی کچھ دیر تلک یہ سورج کا دھیما سا لہجہ سخت لو میں بدل جائے گا ۔ موسموں کو ہی لے لیجئے وہ بھی اپنی حالت بدلتے رہتے ہیں ۔ معاشرتی تبدیلیوں میں لوگوں کے رویّے بدل جاتے ہیں ۔ لیکن ایک طبقہ انسانیت کا ایسا ہے کہ جس پر غمِ دوراں یا غمِ جاناں اثر انداز نہیں ہوتا ۔ غمِ جاناں اپنی زات کا دکھ سمجھ لیں یا پھر مجازی محبت ۔ تو اصل موضوع گفتگو ہے کہ وہ طبقہ جس کو میں خاک نشیں کہتی ہوں یہ لوگ اللہ کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں اور اللہ کے دوست بھی ۔ جو دوستی کے اصولوں سے بھی واقف ہوتے ہیں اور توڑ نبھانا بھی جانتے ہیں ۔ یہ خاک نشیں ہوتے ہیں ۔

میں نے اکثر جگہوں پر دوسری طرح کے خاک نشیں بھی دیکھے اور دماغ سوچنے پر مجبور ہوا کہ دنیا میں کتنے رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ زمین پر ایک کپڑا بچھا کر تسبیح ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھے اللہ کے نام پر مانگ رہے ہوتے ہیں اور کہیں کوئ ماں اپنے شیر خوار بچے کو اٹھائے سورج کے دھانے پر بیٹھی اللہ کے نام پر دست سوال دراز کئے ہوتی ہے یہاں ایک اہم نقطے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گی کہ سننے میں آیا ہے وہ اپنے بچے کو نیند کی دوائ دے کر بےسدھ کئے بیٹھی ہوتی ہے ۔ ہائے ری تلخ حقیقت دل ہل کر رہ جاتا ہے کہ معصوم بچے کا کیا قصور ؟

کئی جگہوں پر لوگ زمین پر جہاں جگہ میسر آجائے وہاں کچھ اشیاء رکھ کر بیچ رہے ہوتے ہیں سردی گرمی کی پرواہ کئے بغیر ۔ ایک اور حیرت ناک بات ان کی ہے جو دو چار ماچس کی ڈبیاں یا چند کھلونے لے کر بظاہر بیچنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں مگر ہر آنے جانے والے سے کہتے ہیں کہ اللہ کے نام پر کچھ دے جاؤ ۔ دل سے ٹیسیں اٹھتیں ہیں کہ انتظامیہ آخر نوٹس کیوں نہیں لیتی اگر لیتی ہے تو مسائل یوں کے توں کیسے ؟

بہرحال میرا مقصد اس وقت ان خاک نشینوں پر روشنی ڈالنا ہے جو دنیا و مافیہا سے بے خبر عشق حقیقی میں ڈوبے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ تو خاک پر بیٹھے گم سم نظر آتے ہیں ۔ لیکن کچھ اپنی زات کے اندر خاک نشینی اختیار کیے ہوتے ہیں ۔ یہی اصل لوگ ہیں جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ کے ہاں بلند مرتبہ پاتے ہیں ۔ ان خاک نشیں لوگوں کے پاس بیٹھنا کچھ سننا کچھ سمجھنا بے حد ضروری ہوتا ہے ۔ یہ لوگ بظاہر تو دنیا میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن اصل میں خاک میں مل چکے ہوتے ہیں اپنی نفی کر چکے ہوتے ہیں ان کو اپنے مرشد و رب کا چہرہ ہی نظر آتا ہے وہ عقل سے آگے کی بات کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ بقاء حاصل کر لینے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور کچھ تو فنا ہو جاتے ہیں ۔ وہ دنیاوی زندگی ظاہری زندگی میں مر چکے ہوتے ہیں ۔ اٹھتے بیٹھتے اپنے حق کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور دنیا سے بیزار رہتے ہیں ۔ دنیا میں سے ایسے گزرتے ہیں جیسے دنیا پر ان کی نظر ہی نہیں پڑی ۔

میرا شعر ہے کہ !

زندگی میں ہی مر گئی گوہر
اور اک دن تو مر ہی جانا تھا

ایک دن آخر ہر کسی نے اپنے اصل کی طرف ضرور لوٹ جانا ہے ۔ یاد رکھنا ہو گا کہ یہی خاک نشیں لوگ انعام یافتہ لوگ ہیں میری دعا ہے کہ ایسے خاک نشینوں میں ہم بھی شمار ہو جائیں دنیا تو فانی ہے اس سے کیا دل لگانا ۔ اللہ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

انمول گوہر/ لاہور

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!