گرمی ایک خاموش قاتل ہے جو دنیا بھر میں کارکنان کی بڑھتی ہوئی تعداد کی صحت اور زندگیوں کیلئےخطرہ بن رہی ہے
جنیوا (تارکین وطن نیوز) عالمی ادرہ محنت کی ایک تازہ رپورٹ، "کام کے دوران گرمی: تحفظ اور صحت کے مضمرات” میں خبردار کیا گیا ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ کارکنان دنیا بھر میں گرمی کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان خطوں کو بھی، جہاں پہلے شدید گرمی نہیں پڑتی تھی، اب بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہو گا، جبکہ پہلے سے گرم علاقوں میں کام کرنیوالے محنت کشوں کو مزید خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رپورٹ میں اس نکتے کو اجاگر کیا گیا ہے کہ گرمی کا دباؤ ایک نظر نہ آنیوالا خاموش قاتل ہے جو تیزی سے بیماری، ہیٹ سٹروک یا حتیٰ کہ موت کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ، یہ گرمی محنت کشوں کے لئے دل، پھیپھڑوں اور گردے کے سنگین مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ افریقہ، عرب ریاستوں اور ایشیا و بحر الکاہل کے خطوں میں محنت کشوں کو سب سے زیادہ شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان علاقوں میں، بالترتیب 92.9 فیصد، 83.6 فیصد اور 74.7 فیصد افرادی قوت شدید گرمی سے متاثر ہوتی ہے۔ تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار (2020) کے مطابق، یہ تعداد عالمی سطح کی اوسط 71 فیصد سے زیادہ ہے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یورپ اور وسطی ایشیا میں کام کرنے کی حالات میں سب سےزیادہ تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں ۔ سال 200 سے 2020 کے دوران، خطے میں گرمی کے دباو کی شدت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا جہاں متاثر ہونے والے کارکنان کا تناسب 17.3 فیصد تک بڑھ گیا، جو عالمی اوسطاً اضافے کا تقریباً دوگنا ہے۔
اسی دوران، امریکہ، یورپ اور وسطی ایشیا میں سال 2000 سے گرمی کے دباؤ کی بنا پر جائے کار پر حادثات میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا، جہاں بالترتیب 33.3 فیصد اور 16.4 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر ان علاقوں میں گرم تر درجہ حرارت کے باعث ہوا ہے جہاں کارکنان اتنی گرمی کے عادی نہیں ہیں۔
رپورٹ کے تخمینے کے مطابق ،سال 2020 میں پوری دنیا میں 4,200 کارکنان گرمی کی لہر سے ہلاک ہوئے۔ مجموعی طور پر، 2020 میں تیئس (23) کروڑ دس لاکھ کارکنان کو گرمی کی لہروں کا سامنا رہا، جو 2000 کے مقابلے میں 66 فیصد زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود، رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر نو میں سے دس کارکنان کو، گرمی کی لہر کے علاوہ بھی، شدید گرمی کا سامنا رہا اور گرمی کی بنا پر واقع ہونے والی ہر دس میں سے آٹھ پیشہ ورانہ چوٹیں گرمی کی لہروں کے بغیربھی واقع ہوئیں۔
اس حوالے سے عالمی ادرہ محنت کے ڈائریکٹر جنرل، گلبرٹ ایف ہوگبو کا کہنا ہے کہ "جہاں دنیا بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نبرد آزما ہونے کوشش کر رہی ہے، ہمیں سارا سال ہی محنت کشوں کو گرمی کے دباؤ سے بچانا چاہیئے۔ صرف گرمی کی لہروں کے دنوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں شدید گرمی کارکنان کے لئے پورے سال کے دوران شدید مشکلات پیدا کر رہی ہے”۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جائے کار پر شدید گرمی سے پیدا ہونیوالے حادثات کو روکنے کے لیے، بہتر تحفظ اور صحت کے اقدامات،عالمی سطح پر361 ارب امریکی ڈالر تک کی بچت کر سکتے ہیں جو بصورتِ دیگر آمدنی کے خسارے اور علاج معالجے کے اخراجات پر ضائع ہو تے ہیں۔ جوں جوں گرمی کے دباؤ کا بڑھتا ہوا بحران عالمی طور پر مختلف خطوں پر مختلف طرح کے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
عالمی ادرہ محنت کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاص طور پر کم اور درمیانی آمدنی والی معیشتیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، کیونکہ جائے کار پر شدید گرمی کی بنا پرحادثات کے اخراجات کل قومی آمدنی کے تقریباً 1.5 فیصد تک جا سکتے ہیں۔
جناب گلبرٹ ایف ہوگبو کا مزید کہنا تھا "یہ انسانی حقوق کا مسئلہ، محنت کشوں کے حقوق کا مسئلہ، اور اقتصادی مسئلہ ہے، اور درمیانی آمدنی والی معیشتیں اسکا سب سے زیادہ بوجھ اٹھا رہی ہیں۔ ہمیں پورے سال کے لیے گرمی سے نمٹنے کے عملی منصوبے اور قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ کارکنوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے، اور ماہرین کے درمیان مضبوط عالمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ گرمی کے دباؤ کے جائزوں اور جائے کار کیلئے متعلقہ اصلاحی اقدامات کو ہم آہنگ کیا جا سکے ۔
دنیا بھر میں کارکنوں پر پڑنے والے گرمی کے اثرات تیزی سے ایک عالمی مسئلہ بنتے جا رہے ہیں، اور یہ ایسا مسئلہ ہےجس کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گوتیریس نے واضح کیا کہ "اگر کوئی ایک ایسی شے ہے جو ہماری منقسم دنیا کو متحد کرتی ہے، تو وہ یہ ہے کہ ہم سب بڑھتی ہوئی گرمی کو یکساں محسوس کر رہے ہیں۔ ہر کہیں، ہر کسی کے لیے زمین پہلے سے گرم تر اور خطرناک تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے چیلنج کا آگے بڑھ کر مقابلہ کرنا ہوگا اور انسانی حقوق کی بنیاد پر، کارکنوں کے لیے حفاظتی اقدامات کو فروغ دینا ہوگا،” ۔
عالمی ادرہ محنت کی رپورٹ دنیا بھر کے 21 ممالک میں قانون سازی کے اقدامات کا جائزہ لیتی ہے تاکہ جائے کار پر گرمی سے تحفظ کے موثر منصوبے کی تشکیل کے لیے مشترکہ خصوصیات کا تعین کیا جا سکے۔ رپورٹ کارکنوں کو گرمی سے متعلق بیماریوں اور حادثات سے بچانے کے لیے تحفظ اور صحت کے نظام کے کلیدی تصورات بھی بیان کرتی ہے۔
رپورٹ کے نتائج اپریل میں شائع ہونے والی سابقہ رپورٹ کا تسلسل ہیں، جس میں بتایا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں شدید گرمی کا سامنا کرنیوالے تقریباً 2.4 ارب محنت کشوں کے لیے صحت کے شدید خطرات کا "آمیزہ” بنا رہی ہیں۔ اپریل کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صرف شدید گرمی ہی ہرسال بائیس لاکھ پچاسی ہزار (2285000) پیشہ ورانہ حادثات اور 18,970 ہلاکتوں کا سبب بنتی ہے۔
ہر علاقے کے تناسب سے رپورٹ کے نتائج:
افریقہ
- افریقہ میں جائے کار پر محنت کشوں کو شدید گرمی کا سامنا عالمی اوسط سے زیادہ کرنا پڑا، جہاں گرمی نے کل افرادی قوت کے 92.9 فیصد کو متاثر کیا۔
- افریقہ کے خطے میں شدید گرمی کی وجہ سے پیشہ ورانہ حادثات کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو کل پیشہ ورانہ حادثات کا 7.2 فیصد بنتا ہے۔
امریکہ
- امریکہ کے خطوں میں 2000 کے بعد سے گرمی کی بنا پر پیشہ ورانہ حادثات کا تناسب سب سے تیزی سے بڑھا ہے، جس میں 33.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
- شمالی اور جنوبی امریکہ میں بھی شدید گرمی کی وجہ سے پیشہ ورانہ حادثات کا ایک نمایاں تناسب ہے، جو 6.7 فیصد ہے۔
عرب ریاستیں
- عرب ریاستوں میں محنت کشوں کو جائے کار پر شدید گرمی کا سامنا عالمی اوسط سے زیادہ رہا، جس نے 83.6 فیصد محنت کشوں کو متاثر کیا۔
ایشیا اور بحرالکاہل
- ایشیا اور بحرالکاہل میں محنت کشوں کو جائے کار پر شدید گرمی کا سامنا عالمی اوسط سے زیادہ رہا، جہاں 74.7 فیصد محنت کش متاثر ہوئے۔ یورپ اور وسطی ایشیا
- یورپ اور وسطی ایشیا میں 2000 سے 2020 کے درمیان شدید گرمی کی خطر پذیری میں 17.3 فیصد اضافہ ہوا، جو عالمی اوسط اضافے 8.8 فیصد سے تقریباً دوگنا زیادہ ہے۔
- اس خطے میں 2000 کے بعد سے گرمی کی بنا پر پیشہ ورانہ حادثات کے تناسب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جو 16.4 فیصد کا اضافہ ہے۔