پاکستان سوشل سنٹر شارجہ میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد

0

فرحت عباس شاہ نے ٹرکل ڈائون اکنامک تھیوری کو رد کرکے ٹوئیسٹ اپ اکانومی تھیوری پیش کی

تقریب میں فرحت عباس شاہ کی کتاب "اردو کا ادراکی تنقیدی داستان” کے حوالہ سے گفتگو کی گئی

علم و ادب کے فروغ کے لئے اس طرح کی تقاریب کا اہتمام جاری رہنا چاہئے، شرکائے تقریب

دبئی (طاہر منیر طاہر) فرحت عباس شاہ ( تغمہ امتیاز ) کا شمار دنیا کے ممتاز اور اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو ،انگریزی اور پنجابی میں لا تعداد کلام تخلیق کیا۔ موضوعات کی وسعت اور کیفیات کے اظہار میں ایسی تخلیقی قوت کسی اور شاعر میں نظر نہیں آتی۔

فرحت عباس شاہ نے نہ صرف معاشی بے انصافی پر قلم اٹھایا بلکہ دنیا کا پہلا اسلامک مائیکروفنانس ماڈل بنا کر اس کو عملی طور پر ثابت بھی کیا۔ فرحت عباس شاہ نے ٹرکل ڈاون اکنامک تھیوری کو رد کرکے ٹوئیسٹ اپ اکانومی تھیوری پیش کی اور ہزاروں خاندانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ فرحت عباس شاہ نے فلسفہ، نفسیات، موسیقی، ادب، صحافت اور مارشل آرٹ جیسے شعبوں میں اپنی حیثیت نہ صرف منوائی بلکہ قبول عام کی سند حاصل کی۔

انھوں نے ہمیشہ، عالمی امن، محبت اور انسانیت کے نظریات کی سربلندی کو فوقیت دی ۔گزشتہ روز ایک عالمی مشاعرہ میں شرکت کے لیے دوبئی تشریف لائے تو پاکستان سوشل سنٹر شارجہ کے صدر اور ادبی فورم نے ان کے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کیا ،ادبی محفل کی صدارت صدر پاکستان مرکز شارجہ چوھدری خالد حسین نے کی ، چوہدری بشیر احمد شاھد سینئر نائب صدر ادبی فورم بھی سرگرم رہے، حافظ زاہد علی نے کمپیئرنگ کے فرائض انجام دیے۔

صدر ادبی فورم ڈاکٹر رحمینہ ظفر نے مہمان خصوصی، شعراء اور شرکاء تقریب کو خوش آمدید کہا، آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا، جس کی سعادت سلمان جاذ ب نے حاصل کی ،ادبی محفل کے دو دور ہوئے پہلے دور میں شرکاء نے فرحت عباس شاہ کی کتاب ” اردو کا ادراکی تنقیدی داستان ” کے حوالہ سے گفتگو کی، جس کا انگریزی ترجمہ ممتاز شاعر ظہیر مشتاق رانا نے کیا ھے ،کتاب کے بارے تنقیدی نظریہ پیش کیا گیا ، فرحت عباس شاہ نے کہا کہ یہ اتنا پراسرار نظام ہے جو ابھی تک لوگوں کو سمجھ نہیں آیا جبکہ اردو ادب میں مغربی تھیوری پڑھائی جا رہی ہے۔

معاشرہ جس طرف جا رہا ہے وہا ں ہمیں معاشی حوالوں سے جکڑ دیا گیا ہے کہ ہم سوچنے کے قابل بھی نہیں ر ہے، اگر کوئی اپنی تخلیق کے ساتھ مخلص ہے کوئی دنیاوی فائدے اور مفادات دیکھ کر پلان نہیں کر ر ہا تو درست ہے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ،آج کل مفادات کو مدنظر رکھ کر تخلیقی آرٹ کو گھڑا جا رہا ہے ،میں بنیادی طور پر ایک ایسا طالب علم ہوں جو ہمیشہ سوچتا ہوں کہ یہ کیوں ہے اور کیا ہونا چاہئے، میں بنیادی طور پر نفسیات اور فلسفہ کا طالب علم ہوں ۔

ہمارے ملک کے تعلیمی نصاب کو بھی غیر ملکی ادارے چلا رہے ہیں، میری خوش قسمتی ہے کہ میری کتاب، اردو کا ادراکی تنقیدی داستان، کا خوب صورت ترجمہ نبراس نے کیا ہے، اچھا کام ہوا ہے جس کا کریڈٹ نبراس کو دیتا ہوں ،جو آج اس ادبی محفل میں موجود ہیں،سلمان جاذ ب، مرزا غلام مصطفی، شہناز خانم، سید نعیم اعجاز ،افضل خان، رحمینہ ظفر، شاداب اصغر، ظہیر مشتاق رانا اور دیگر شعرا نے اپنا تازہ کلام سنایا ،نبراس سہیل نے افسانہ سنایا ،فرحت عباس شاہ نے اپنا تازہ کلام ترنم کے ساتھ اور افسانہ بھی پیش کیا ۔

سلمان جاذ ب نے اپنی کتاب ،راشد السلام اور نعیم الدین ایاز نے تحائف مہمان خصوصی کو پیش کئے ،ڈاکٹر رحمینہ ظفر، چوھدری خالد حسین، ڈاکٹر نور الصباح، نبراس سہیل اور حافظ زاھد علی کو بھی تحائف پیش کئے گئے۔

آخر میں صدر محفل چوہدری خالد حسین نے مرکز پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کی جانب سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کے دروازےاردو ادب کے فروغ کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں، میں اور انتظامیہ ہر طرح سے تعاون کے لئے حاضر ہیں،یہ ایک شاندار اور پروقار تقریب تھی جس کا سہرا صدر مرکز پاکستان شارجہ اور ادبی فورم کے سر جاتا ہے ، لہٰذا علم و ادب کے فروغ کے لئے اس طرح کی تقاریب کا اہتمام جاری رہناچاہیے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!