کیا آج انسان کوقرآن کے یہ الفاظ یاد ہیں کہ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ یعنی ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے لیکن اگر ہم اردگرد نظر دوڑائیں تو یقین کرنا پڑے گا کہ انسان قرآن کے یہ الفاظ بھول گیا ہے اور وہ دنیا کی آسائشوں میں اتنا گم ہوگیا ہے کہ اسے یاد ہی نہیں کہ ہمیں مرنا ہے لوٹ کھسوٹ عام ہے وہ کیا عام آدمی ہو یا حکمران مولوی ہو یا تاجر ہر محکمے میں کرپشن جس کا جہاں دائو لگتا ہے وہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کوئی شراب پینے میں مست ہےکوئی زنا کاریوں میں مبتلا ہے کوئی سود کھانے میں لگا ہوا ہے کوئی اپنی اولادوں کو حرام کی کمائی کھلانے میں لگا ہوا ہے کسی میں اتنا غرور اور تکبر ہے کہ ہے وہ انسان کو انسان نہیں سمجھتا یہ تمام برائیاں اس لئے ہیں کہ ہم میں سے خوف خدا ختم ہوگیا ہے اور ہم بھول گئے ہیں کہ آخر ہماری یہ زندگی ایک دن ختم ہوجانی ہے اور ہمارے اعمالوں کی جو کتاب تیار ہورہی ہے وہ جب ہمارے رب کے سامنے پیش ہوگی تو ہمارا کیا حال ہونا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ ملک میں فرمایا۔ ’’زندگی اور موت اس لئے رکھی ہے کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے نیک عمل کون کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے دراصل انسان کی زندگی اور موت کے درمیان جو وقت دیا ہے وہ ایک امتحان ہے جس نے اچھے اور نیک اعمال کئے اس نے خدا کا قرب حاصل کیا اور جو گناہوں میں مبتلا رہا اس کو خدا کا غیظ و غضب ملے گا لیکن خدا کی ذات اپنے بندے سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اس نے انسان کے لئے توبہ کا راستہ کھول دیا وہ چاہتا ہے کہ اگر انسان سے غلطیاں یا گناہ سرزد ہوگئے ہیں اور وہ اپنے کئے پر نادم ہے اور گڑگڑا کے خدا کے سامنے اپنے گناہوں کی توبہ کرے تو خدا اسے ایسے معاف کردیتا ہے جیسا کہ وہ ابھی اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مختلف نیکیاں راستے اور کئی راتیں ایسی رکھی ہیں جس میں خدا اپنے بندوں کو کثرت سے معاف کرتا ہے ان ہی راتوں میں سے ایک رات ’’شب برأت‘‘ ہے۔
یہ شب شعبان کے مہینے میں15 ویں شب کو آتی ہے شب قدر کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اور شب برأت کو اس لئے ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ رات قضا اور حکم قہر اور رضا قبولیت اور رد نزدیکی اور دوری کرامت اور پرہیزگاری ہے اس رات میں ایک آدمی کو تو نیک بخت کردیتے ہیں دوسرے کو مردود بنادیتے ہیں ایک کو نیک عملوں کی جزا دے کر سربلند کردیا جاتا ہے اور دوسرے کو خوار کردیا جاتا ہے ایک کو بزرگی دی جاتی ہے اور دوسرے کو اس سے محروم کیا جاتا ہے بہت سے لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں جو عنقریب ہلاک ہونے والے ہوتے ہیں بہت سے لوگ ثواب کے امیدوار ہوتے ہیں مگر ان پر عذاب نازل ہوتا ہے ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے ”شعبان” عربی زبان کے لفظ ”شَعّب” سے بنا ہے جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں شعبان کے مہینے کی پندرہویں رات کو شب برات کہا جاتا ہے شب کے معنی رات اور برات کے معنی ہیں نجات چونکہ اس رات مسلمان توبہ و استغفار کرکے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے بے شمار مسلمان جہنم سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں اس رات کو عربی میں لیلة المبارک یعنی برکتوں والی رات اور رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔
اسے تقسیمِ امور کی رات بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس رات میں زندگی سے لیکرموت تک اور نیکی سے لیکر برائی کرنے والوں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ یا وقت آگے پیچھے نہیں ہوتا اِس شب کی بے شمار خصوصیات میں یہ بھی ہے کہ ِ زم زم کا پانی بڑھ جاتا ہے ہر اَمرونہی کا فیصلہ ہوتا ہے بندوں کی عمر رزق حوادث مصائب و آلام خیر و شر رنج و غم فتح وشکست ذلت وعزت قحط سالی و فراوانی غرضیکہ کے تمام سال میں ہونے والے افعال اِس رات میں اْس محکمہ سے تعلق رکھنے والے فرشتوں کو سونپے جاتے ہیں جس پروہ آئندہ سال عمل کرتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالی اس رات سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں کیا کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں کہ اس کو رزق عطا کروں ؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ اس کو عافیت عطا کروں ؟ – ساری رات اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے شب برات صرف اور صرف عبادت کی رات ہے اللہ کے حضور اپنے گناہوں پر نادم ہو کر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنے کی رات ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شعبان کی وسط رات میں حضرت جبرائیلؑ میرے پاس آئے اور کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم آسمان کی طرف سر اٹھائیں کیونکہ یہ برکت کی رات ہے اس رات اللہ 3 سو دروازے کھولتا ہے اور تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے جو اس کا شریک نہیں بناتے ساحر اور کاہن ہمیشہ شراب پینے والا سودخور زنا کرنے والا جب تک یہ توبہ نہ کریں ان کی بخشش نہیں ہوگی ۔
رات کا چوتھا حصہ گزرا پھر جبرائیل حاضر ہوئے اور کہا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سربلند کیجئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ جنت کے سب دروازے کھول دیئے گئے ہیں پہلے دروازے پر ایک فرشتہ کھڑا پکار رہا ہے کہ جو شخص اس رات کو رکوع کرتا ہے اس کو خوشخبری ہو دوسرے پر فرشتہ پکار رہا ہے جو آدمی اس رات سجدہ کرتا ہے اس کو خوشخبری ہو چوتھے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے جو اس رات ذکر کرتے ہیں ان کو خوشخبری ہو پانچویں دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے جو لوگ خدا سے خوف سے کھاتا ہے اسے خوشخبری ہو چھٹے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے تمام مسلمانوں کو خوشخبری ہو ساتویں دروازے پر فرشتہ پکار رہا ہے کوئی سوال کرنے والا ہے سوال کرے، اس کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آٹھویں دروازے پر فرشتہ کہہ رہا ہے کوئی ہے جو بخشش کی درخواست کرنے والا ہے اسے بخشش دی جائے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل سے پوچھا یہ دروازے کب تک کھلے رہیں گے یہ دروازے صبح تک کھلے رہیں گے اور خدا اس رات میں دوزخ کی آگ سے اس قدر اپنے بندوں کو نجات دیتا ہے جس قدر کہ قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں ہمارے پیارے آقا ﷺ نے ارشا د فرمایا جو شخص پندرہ شعبان کو روزہ رکھتا ہے اسے دو سال ایک گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے روزوں کا ثواب ملتا ہے یہ رحمتیں سمیٹنے اور بخشش طلب کرنے کی رات ہے آئیے اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں سے شرمندہ ہوکر ندامت کے آنسو بہائیں اپنی غلطیوں کوتاہیوں پر شرمسار ہوں یہ اس رب کا احسان ہے جس نے ہم گناہ گاروں کے لئے توبہ کا راستہ کھول رکھا ہے اور ہماری زندگی کی سانس چل رہی ہے جتنا جلد ہوسکے خدا کے حضور سر بہ سجود ہوجائیں اور گڑگڑا کر رو کر اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اس ’’شب برأت‘‘ میں اپنے گناہوں سے آزادی حاصل کریں اور اسکی رحمتوں سے اپنی جھولیاں بھر لیں۔