بجٹ 2022 – 2023 ذرمبادلہ کی مشینوں۔ بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے کچھ نہیں۔
موجودہ وفاقی حکومت نے جیسے سنگین معاشی حالات میں اقتدار سنبھالا ان میں کسی فوری بہتری کا مطالبہ کرنا یقینا معقول رویہ نہیں لیکن معاملات کی سمت درست کرنے کی ذمے داری بہرحال اس پر عائد ہوتی ہے جس کے سوا اس کے قیام کا کوئی جوازقابل فہم نہیں۔ موجودہ حکومت نے یہ توجہی پیش کی ہے کہ گزشتہ پونے چار سال کے دوران ہر سال معاشی پالیسی بدل جاتی رہی جس سے سرمایہ کاروں اور عالمی اداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہوگیااور وہ بنیادی اصلاحات جو 2019میں ہونی تھیں اب تک نہیں ہوئیں۔حکومت نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ معیشت کے ڈھانچہ جاتی بگاڑ کو درست کرنے کیلئے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے جس کا ایک فوری منفی رد عمل بھی متوقع ہوتا ہے مگر اس سے معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجاتی ہے انکا موقف ہے کہ موجودہ حکومت یہی کچھ کررہی ہے۔ ۔ قومی معیشت کی ابتری کے اسباب مقامی بھی ہیں اور کورونا کے بعد روس یوکرین تنازع جیسے بین الاقوامی بھی جس نے پیٹرول کے بحران کو جنم دیا جبکہ قرضوں کے شکنجے نے ہماری ترقیاتی سرگرمیوں کی راہ تقریباً مسدود کررکھی ہے اگر عالمی سطح پر عوام کیلئے پیٹرول کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو وہ بہت ہی ہوشرباء ہے، پاکستان میٰں عوام کیلئے پیٹرول کی قیمت کے مقابلے میں دنیا کے دیگر ممالک میں پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں تمام نامساعد اسباب کے باوجود بظاہر ایک متوازن اور عوام دوست بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بجٹ کا مجموعی حجم 9502 ارب روپے ہے جس میں 3798ارب کا خسارہ دکھایا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے بجٹ پر نوائے وقت کے استفسار پر بتایا کہ :
ذکاء اللہ محسن
نجی اداروں کے ملازمین بھی یکساں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہوش ربا مہنگائی کے پیش نظر ان کی آمدنیوں میں بھی فوری طور پر معقول اضافہ یقینی بنایا جائے ضروری ہے کہ نجی ملازمین دکھ درد دور کرنے کیلئے بازار میں قیمتوں پر تمام تر ذرایع بروکار لاکر کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ مسئلے کا حل نہیں۔ موبائل فون اور بڑی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے اور زرعی آلات، بیجوں، سولر پینل اور 30 ضروری ادویات پر ٹیکس ختم کرنے کی تجاویز سے دولت مند طبقات سے وسائل حاصل کرکے کم آمدنی والوں کو ریلیف کی فراہمی،زرعی ترقی اور بجلی بحران پر قابو پانے کے امکانات بہتر ہوں گے۔ انکم ٹیکس کی چھوٹ کی حد 6لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کیا جانا بھی کم آمدنی والے طبقوں کیلئے خوشگوار اقدام ہے۔ ۔دفاعی اخراجات کو ناگزیر ضروریات تک محدود رکھنا اور فوج کی جانب سے مختلف مدات میں ملنے والی رقوم میں سے بچت کرکے ساڑھے آٹھ ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانا وقت کے تقاضے کے ادراک کی اچھی مثال ہے۔حکومت پانامہ کیس جیسے معاملات میں بیرون ملک میں رکھی گئی دولت کو پاکستان میٰں واپسی کی سعی کرے جس مین دو ہزار پاکستانیوں کی رقومات رکھی ہیں انہیں فوری اور ہنگامی طریقے سے پاکستان واپس لانے کی کوشش کی جائے یہ واضح لوٹ کی رقم ہے۔ سب سے اہم اس بجٹ میں قابل اعتراض ہے، جبکہ ملک کو ذررمبادلہ کی اشد ضرورت ہے بیروں ملک پاکستانی جو ذرمبادلہ کی مشین ہیں انہیں بلکل نظر انداز کردیا گیا ہے،انکے لئے کسی incentive کی بات نہیں کی گئی، بیرون ملک پاکستانی ملکی معاشی صورتحال سے بہت پریشان ہیں وہ ہمیشہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں انہیں ایک جانب ووٹ کے حق سے محروم کردیا گیا دوسرے جانب ذرمبادلہ وطن بھیجنے کی کوئی ترغیب نہیں ۔
مسعود احمد پوری
بجٹ 2022-2023 بادی نظر میں ایک متوازن بجٹ ہے، زراعت کی ترقی کیلئے بیجوں پر ٹیکس کا خاتمہ، ٹریکٹرز پر سیل ٹیکس کا خاتمہ، اور زرعی شعبے کو مکمل ٹیکس فر ی کرنا ایک اہم اقدام ہے۔ اسی طرح ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کو سستا کیا گیا ہے، انرجی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے سولرپینل پر کسٹمز ڈیوٹی کا خاتمہ کرنا ایک اچھا اقدام ہے،پینشن میں اضافہ بھی ایک مستحسن اقدام ہے۔ بجٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر ترغیبات کا ذکر ہونا بیرون ملک لاکھوں پاکستانیوں کے ساتھ ذیادتی ہے۔ مسعود احمد پوری نے کہا بنگلہ دیش اپنے بیرون ملک رہنے والوں کو ذرمبادلہ بھیجنے پر ترغیبات دیتا ہے جس سے ترسیلات میں اضافہ ہوتا ہے۔
جاوید ملک
پاکستان کا حالیہ بجٹ بہت سے خدشات کے باوجود تسلی بخش رھا۔توقع کے برعکس ملازمین کی تنخواہ میں مناسب اضافہ کرنا احسن اقدام ھے۔تنخواہ دار پہ ٹیکس کی حد 6 سے 12 لاکھ کرنا بھی احسن اقدام میں شامل ھو گا۔ چالیس ہزار سے کم آمدن والے ملازمین کی مالی مدد کرنا۔فلمی صنعت کی ترقی کے بارے پہلی بار بجٹ رکھا گیا ھے۔جس سے کلچر کو بھی فروغ ملے گا۔سی پیک کام میں تیزی۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ اور مزید 10 لاکھ طلبہ کو اس پروگرام سے امداد دینا۔اعلی تعلیم کے لیئے HECکے بجٹ میں 67%اضافہ۔پیداواری صنعتوں کے لیئے لوڈ شیڈنگ 0%۔سولر پاور پر ٹیکس 0%۔زرعی مشینری پر ٹیکس معاف۔عدالتوں سے باہر تصفیہ طلب معاملات حل کر کے وقت اور اخراجات کی کمی میں بہتری لانا۔یہ سارے اقدامات ثابت کرتے ھیں کہ اگر خلوص نیت سے کام کیا جائے اور صحیع وقت پہ صحیع فیچلے کیئے جائیں تو ملک کو بہت جلد بحران سے نکالا جا سکتا ھے۔
مرزا منیر بیگ
سینیئر لیول کے دو ڈاکٹر ایک آرمی آفیسر انجینئر اور فنانس کے دوست شامل تھے اور پھر گفتگو میں ھر طرح کی باتوں میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور بجٹ وغیرہ پر بھی تبصرے ھوئے۔مجھے جو سب سے زیادہ کام کی بات لگی اور جس پر سب دوست متفق بھی نظر آئے وہ یہ تھی کہ میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان جو ایک کروڑ لوگوں کو 2000 روپے ھر ماہ دینے جا رھے ہیں اس کے بدلے غریب اور عام لوگوں کو سولر انرجی پلیٹس قسطوں پر مہیا کریں اور یہی 2000 قسط حکومت خود ادا کرے جس سے ایک کروڑ گھروں کو مفت بجلی فراھم ھونا شروع ھو جائیگی اور بچنے والی فالتو بجلی صنعتوں کو فراھم کر دی جائے جس سے نہ صرف بجلی کے بحران پر کافی حد تک قابو پا لیا جائے گا بلکہ ھر ماہ تیل کی درآمد پر کافی ڈالر بھی بچائے جا سکیں گے اور غریب لوگ بجلی بل سے نہ صرف نجات حاصل کر لیں گے بلکہ ھر ماہ اوسط” 5 سے 10 ھزار کا فائدہ اٹھا پائیں گے۔تجویز انتہائی قابل عمل اور وقت کے عین مطابق ھے۔
سردار وقاص عنائت
حکومت پاکستان نے ایک مشکل بجٹ پیش کیا ہے جہاں پوری دنیا میں بحران ہے تو غریب ممالک اس سے ذیادہ متاثر ہو رہے. وقت آگیا ہے کہ ایک معیشت کو سہارا دینے کے لیے ہم ایک متفقہ قومی پالیسی بناہیں اور تمام سیاسی جماعتیں اس چھتری تلے اکھٹے بیٹھیں۔