’’تم ایک نہایت نکھٹو اور بدتمیز لڑکے ہو عماد پچھلے چار سال سے تم ایک ہی کلاس میں فیل ہوتے آ رہے ہیں۔یہ تمہارے پاس آخری موقع ہے اگر آئندہ کوئی شکایت ملی تو تمہیں گھر بھیج دوں گا‘‘استاد محترم اس پہ برس رہے تھے اور وہ سر جھکائے ان کے سامنے کھڑا تھا۔یہ سب وہ چار سال سے ہی سنتا آ رہا تھا۔مگر آج میٹرک کے رزلٹ کے بعد اس کی سب امیدوں پہ پانی پھر گیا۔وہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا مگر پچھلے چار سال سے میٹرک کے امتحان مین فیل ہو رہا تھا۔گھر والے اس کی ان ہی حرکتوں کی وجہ پریشانی کا شکار تھے۔وہ میٹرک کا رزلٹ کارڈ ہاتھ میں لئے گھر آ رہا تھا۔انگلش کے علاوہ وہ کسی مضمون میں اس بار بھی پاس نہ ہو سکا۔گھر والوں کے ردعمل کے خوف سے اس نے گھر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور سیدھا ایک دوست کی طرف چلا گیا۔کچھ دیر کے لئے بچنے کا یہ واحد راستہ تھا۔اس وقت مغرب کی اذان جاری تھی جب وہ رزلٹ کارڈ ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا کہ اچانک اسے کسی نے کان سے پکڑ کر زور سے کھینچا۔درد کی شدت سے وہ بلبلا اٹھا اس نے مڑ کر دیکھا تو ابا اسے خون خوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
’’کیوں میرا پتر،میٹرک کا رزلٹ آتے ہی ہوائوں میں اڑنا شروع کر دیا۔یا ٹاپ کرنے پہ اتنی خوشی ہوئی کہ گھر کا رستہ بھول گیا‘‘
’’وہ بابا،وہ۔۔۔وہ‘‘اس نے بولنے کی کوشش کی مگر خوف سے آواز اس کے گلے میں ہی اٹک گئی۔
’’اپنا قد دیکھ اور اپنی حرکتیں دیکھ،حوالدار رئیس احمد کا بیٹا پچھلے پانچ سال میں پانچ بار میٹرک میں فیل ہو گیا‘‘وہ غصے میں غرائے
’’ابا جی پانچ بار نہیں چار بار فیل ہوا ہوں‘‘اس کی زبان کیا پھسلی کہ ابا نے تین چار چماٹ اس کی کمر پہ رسید کر دیئے اور وہ دوست کے گھر سے نکل کر سیدھا گھر کی جانب دوڑ پڑا۔اس کے پیچھے پیچھے ابا بھی اسی سپیڈ سے چل رہے تھے۔گھر پہنچتے ہی اس نے بچنے کے لئے ماں کے آنچل میں پناہ لے لی۔
’’تم اپنے رئیس زادے کو کیوں نہیں سمجھاتی آج چوتھی بار میٹرک میں فیل ہو گیا‘‘وہ آتے ہی عماد کی ماں پہ برس پڑے
’’دیکھیں جی رئیس احمد آپ کا ہی نام ہے تو آپ پہ ہی گیا ہو گا میں کیا کروں میں تو چٹی ان پڑھ ہوں‘‘وہ بولیں
’’مجھ پہ گیا ہوتا تو پہلی واری ہی میٹرک پاس کر دیتا میں نے تو گورنمنٹ سے وظیفہ لیا تھا۔21 سال آرمی کی نوکری کی ہے اور اب آرام سے پنشن پہ گزارا کر رہا ہوں۔اس کے دونوں بھائی کسی نہ کسی جگہ پکے ہو گئے ہیں مگر یہ آیا میری عزت رولنے،میرے سینے پہ مونگ دلنے اب چل تجھے کسی ہوٹل پہ ہوں چھوڑوں گا۔وہاں برتن مانجھوں گے تو تمہاری عقل بھی ٹھکانے آئے گی‘‘انہوں نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’نہیں ابا بس ایک آخری موقع میں وعدہ کرتا ہوں اس بار ضرور پاس ہونگا‘‘وہ گڑگڑایا
’’ہاں جی اسے پڑھنے دیں ایک موقع دے دیں اب کی بار یہ ضرور پاس ہو گا‘‘ماں بھی اس کی حمایت کرتے ہوئے گویا ہوئی
’’تم دونوں اپنا منہ بند رکھو اور چلو تم میرے ساتھ تجھے ابھی ہوٹل پہ چھوڑ کر آتا ہوں‘‘ان کی بات سن کر وہ غرائے جس سے دونوں ماں بیٹا سہم گئے۔
’’اب جلدی جلدی تیاری کر تجھے رات کے کام پہ ہی ہوٹل چھوڑ کر آتا ہوں‘‘وہ بولے تو اس نے بے بسی ماں کی طرف دیکھا جہاں سے اسے حمایت کی کوئی امید نظر نہ آئی تو اس نے کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کئے اور باپ کے ساتھ گائوں کے اڈے پہ بنے دو کمروں پہ مشتمل ایک ہوٹل پہ پہنچ گیا۔گائوں کا یہ ہوٹل جس کے مالک کا نام فیکا تھا واحد ہوٹل تھا جہاں پہ ہر طرح کے لوگ آتے۔فیکا اور اس کا بیٹا کئی سالوں سے یہ ہوٹل چلا رہے تھے اور ہر گزرتا مسافر یہاں ضرور رکتا کیونکہ اس جگہ آس پاس دور دور تک کوئی بھی ہوٹل نہیں تھا۔ہوٹل بھی مین روڈ پہ واقع تھا جہاں بڑی بڑی گاڑیوں کی آمدورفت تھی۔
’’اسلام علیکم حوالدار جی کیسے ہیں‘‘فیکے کے بیٹے نے حوالدار رئیس احمد کے آتے ہی انہیں ایک چارپائی پہ بیٹھایا۔
’’وعلیکم السلام پتر میں ٹھیک تو سنا کیسا ہے اور تیرا باپ کدھر ہے مجھے اس سے کچھ کام ہے‘‘وہ بولے
’’آپ حکم کریں حوالدار جی ابا اس وقت گھر ہوتے ہیں تو میں ہی ہوٹل سنبھالتا ہوں‘‘
’’کچھ نہیں پتر بس میرے اس نکمے پتر کو ہوٹل پہ کام دینا تھا۔تنخواہ جتنی تم لوگوں کی مرضی دے دو مگر اسے کام پہ لگائو‘‘
فیکے کے بیٹے نے کن اکھیوں سے عماد کی طرف دیکھا اور پھر دونوں ہاتھ ان کے سامنے جوڑ دیئے”حوالدار چچا آپ اپنے بیٹے کو کوئی اور کام دیں یہ یہاں کام کرنے کے لائق نہیں ہے’’وہ بولا تو رئیس احمد نے عماد کی طرف خونخوار نظروں سے دیکھا اور بولے”دیکھا تیرے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی تجھے کام پہ رکھنے کو تیار نہیں ہے پتا نہیں کدھر کدھر خوار کروائے گا‘‘وہ اٹھے اور فیکے کے بیٹے سے مصافحہ کر کے جانے لگے کہ فیکے کے بیٹے نے انہیں روک لیا اور عماد کو ساتھ رکھنے کی خامی بھر لی
’’چچا آپ ناراض مت جائیں میں اسے رکھ لیتا ہوں بس پتا نہیں یہ کام اس سے ہو بھی سکے گا یا نہیں بہر حال آپ اسے چھوڑ جائیں ادھر‘‘
’’پتر تیرا بہت بہت شکریہ اللہ بھلا کرے چل پتر لگ جا کام پہ جو یہ کہتے وہ کرو‘‘تو عماد سر جھکا کر آگے بڑھ گیا۔پھر حوالدار ریٹائرڈ رئیس احمد اسے وہیں چھوڑ کر گھر چلے گئے جبکہ عماد فیکے کے بیٹے کے حکم کے مطابق برتن دھونے لگا۔رات بھر مخلتف لوگوں کا گزر ہوتا رہا اور وہ برتن دھونے اور مہمانوں کی خدمت کرنے میں مصروف رہا۔پھر صبح ہوتے ہی وہ گھر واپس لوٹ آیا
آج ہوٹل پہ کام کرتے ہوئے عماد کو آٹھواں دن تھا جب ایک فوجی وردی میں ملبوس چند افراد وہاں پہنچے۔وہ سب کے سب فوجی وریاں پہنے تھے اور ان کے پاس فوجی گاڑی بھی تھی۔عماد نے انہیں چائے پیش کی۔وہ لوگ چائے پینے لگے تو وہ بھی کچھ فاصلے پہ ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔اس وقت ان کے درمیان کوئی اہم موضوع زیر بحث تھا جب ایک فوجی آفیسر نے اس کی دلچسپی اور انہماک دیکھ کر اسے پاس بلایا’’لڑکے بات سنو ادھر آئو میرے پاس کیا نام ہے تمہارا‘‘وہ بولا
’’جی میرا نام عماد رئیس ہے اور حوالدار رئیس احمد کا بیٹا ہوں‘‘اس نے جواب دیا تو فوجی آفیسر کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
’’کیا تم فوجی کے بیٹے ہو‘‘باقی سپاہی بھی اسے حیران کن نظروں سے دیکھنے لگے
’’جی میرے ابا فوج میں اکیس سال تک ملازم رہے ہیں اور بدقسمتی سے میں میٹرک میں چار بار فیل ہو گیا تو یہاں کام کرنے لگا‘‘اس نے بے بسی چھپانے کی کوشش کی
’’کتنے سال سے کام کر رہے ہو یہاں‘‘آفیسر نے اس سے پوچھا
’’ابھی آٹھ دن ہوئے ہیں‘‘اس نے بتایا
’’اگر تم کہو تو تمہارے لئے نوکری ہے ہمارے پاس بطور سپاہی تم ملک کی خدمت کر سکتے ہو اگر تم چاہو تو‘‘اس نے ایک نظر سب کی طرف دیکھا پھر سر جھکا دیا
’’کیوں مذاق کرتے ہیں سر جی میں کہاں اور فوج کہاں‘‘وہ تلخی ہنسا
’’یہ سب تم مجھ پہ چھوڑ دو اگر تم تیار ہو تو آئو ہمارے ساتھ پہلے ہم تمہارے ماں باپ سے اجازت لیتے ہیں باقی باتیں بعد میں ہوں گی‘‘فوجی آفیسر نے پراعتمادی سے کہا
’’میں تیار ہوں سر مگر گھر والوں کا کیا پتا وہ جانے دیتے بھی ہیں یا نہیں۔میں تو ابھی ہی آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں‘‘اس عاجزانہ لہجے میں کہا
’’ٹھیک ہے پہلے تمہاتے گھر چلتے ہیں پھر بعد میں باقی دیکھی جائے گی‘‘فوجی آفیسر نے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔فیکے کا بیٹا اس وقت کمرے میں موجود تھا اور اسے نہیں معلوم تھا کہ عماد فوجیوں کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔وہ باہر نکلا اس نے ادھر ادھر عماد کو ڈھونڈا تو وہ اسے کہیں نظر نہ آیا۔وہ ہاتھ ملتا رہ گیا اور اسے جان کے لالے پڑ گئے
’’جیسا آپ کا حکم کیپٹن عماد ہم کسی بھی صورت یہ علاقہ نہیں چھوڑیں گے بلکہ اپنی جان پہ کھیل کر اپنے ملک کا دفاع کریں گے‘‘ایک سپاہی نے گرج دار آواز میں اس کے سوال کا جواب دیا۔8 ستمبر 1965کو جنگ شروع ہوئے دوسرا روز تھا۔وہ اپنی یونٹ کے چند افراد کے ساتھ مل کر لڑ رہا تھا۔اس نے دشمن کی صفوں میں گھس کر انہیں پچھاڑ دیا۔گھر سے اجازت مل جانے کے بعد وہ چار سال تک پڑھتا رہا۔سب کے لئے اس کی کامیابیاں حیران کن تھیں۔اس کے ماں باپ بھی اسے کی کامیابیوں پہ حیران تھے۔چار سالہ تعلیم کے بعد آرمی میں اسے کیپٹن کے عہدے پہ فائز کر دیا گیا۔پھر چار سال بعد اچانک وہ گھر واپس آیا تو اس کے کندھوں پہ کیپٹن کا بیج تھا۔اسے آرمی کی ایک گاڑی باقاعدہ طور پر چھوڑنے آئی۔گھر والوں کے لئے یہ سب حیران کن تھا۔اس کی کامیابی نے سب کو چونکا دیا۔اس کا باپ انگریز دور سے ہی آرمی میں تھا اور اب اس کے سب سے نکھٹو بیٹے نے اس کا سر فخر سے بلند کر دیا۔فرط جذبات سے اس کے ماں باپ نے اسے گلے سے لگا لیا۔
وہ تین دن سے مسلسل رکے بغیر لڑ رہا تھا۔اسے آرام کی پرواہ بالکل بھی نہ تھی اور نہ وہ مسلسل لڑتے رہنے پہ ابھی تک تھکا نہ تھا۔وہ ایک عام سا لڑکا تھا۔مگر آرمی نے اسے لعل بنا دیا۔ماں باپ کا لعل،ملک کی بقا کی خاطر لڑنے والا لعل۔ایک وقت تھا جب اس کی پہچان کام چور کے طور پہ تھی۔بندوق ہاتھ میں تھامے وہ اس وقت مسکرایا جب میٹرک کا رزلٹ ہاتھ میں پکڑے اسے چار سال تک سب سے طعنے سننے پڑے۔8 ستمبر کی رات لڑائی میں مزید شدت آ چکی تھی۔وہ دشمن کی صفوں کو چیرتا بہت آگے نکل گیا تھا۔اس کے کئی ساتھی جام شہادت نوش کر چکے تھے۔اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہ شہید ہونے والے دو ساتھیوں کی لاش کندھوں پہ اٹھائے ہوئے تھا۔دشمن کی فوج کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود پسپا ہو رہی تھی۔وہ چلتے چلتے دشمن کے ٹینکوں کے بالکل قریب پہنچ گیا کہ اچانک سامنے سے آتی مشین گن کی گولی اس کے سینے سے پار ہو گئی۔وہ ڈھگمگایا مگر سنبھل کر پھر سے چلنے لگے۔گولی لگنے کے بعد اس کے سینے سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑا۔اس نے خون کی پراہ کئے بغیر دشمن پہ گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔چند قدم چلنے کے بعد اس میں مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی۔اس نے سر اوپر اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھا۔اس کی خواہش پوری ہو گئی جو کہ ہر ایک مسلمان کی ہوتی ہے۔اس پہ مشین گن سے مزید گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی تو وہ زمین پہ گر گیا جام شہادت نوش کر گیا۔وہ پسپا نہیں ہوا تھا مگر اس نے دشمن کو پسپا کر دیا۔اس نے دلیری اور بہادری سے لڑ کر دشمن کے دانت کھٹے کئے اور اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر سینکڑوں دشمنوں کو واصل جہنم کیا۔اس کا مشن اس کی شہادت کے ساتھ مکمل ہو چکا تھا۔اس کی شہادت کے بعد جنگ چند لمحے مزید جاری رہی اور پھر دشمن کی توپیں خاموش ہو گئیں۔دشمن کی فوج اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔یوں پاک آرمی کا ایک سپوت اپنی لازوال قربانیوں کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔اس کے چند ساتھی زخمی اور شہید ہوئے تھے۔وہ ان سب میں جونئیر تھا مگر اس کا عہدہ سب سے بڑا تھا۔کیپٹن عماد کی شہادت نے اس کے ساتھیوں کو بھی سوگوار کر دیا۔چونڈہ کے مقام پہ دشمن سے لڑنے والی وہ پہلی یونٹ تھی۔اس کے ساتھیوں نے اس کا جسد خاکی اٹھا کر گاڑی میں رکھا اور اس شہید کو سلامی پیش کی۔اس کے ساتھ ہی سب شہیدوں کے ساتھ اسے بھی گھر کی طرف روانہ کر دیا گیا۔
حوالدار رئیس احمد اس وقت جانوروں کے باڑے سے باہر نکل رہے تھے جب انہوں نے فوجی گاڑی کو گھر کی طرف آتے تھے۔فوجی گاڑی کے پیچھے مزید دو اور گاڑیاں تھیں۔حوالدار رئیس احمد کو نہ جانے کیوں لگا کہ ان کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔وہ وہیں ساکت کھڑے رہے جب فوجی گاڑیاں ان کے پاس آ کر رک گئیں۔ایک سپاہی نے نیچے اتر کر انہیں سلامی دی اور پھر باقی سپاہیوں کی طرف اشارہ کیا تو وہ عماد کا جسد خاکی گاڑی سے اتارنے لگے۔حوالدار رئیس احمد وہیں زمین پہ بیٹھ گئے۔فوجی جوانوں نے اسٹریچر ان کے پاس رکھ دیا تو انہوں نے آنسو بہاتے ہوئے عماد کا چہرہ چوم لیا
’’جو میری دیرینہ خواہش تھی میرے بیٹے،اکیس سال تک فوج کا حصہ رہنے کے باوجود پوری نہ ہو سکی وہ تم نے پوری کر دی۔مجھے تمہاری شہادت پہ فخر ہے میرے بیٹے‘‘وہ بولے اور اپنے آنسو پونچھنے لگے۔اس کا جسد خاکی گھر پہنچایا گیا۔آس پاس کے دیہات کے لوگ بھی ان کے گھر میں امڈ آئے۔چند سال پہلے اس کی پہچان کیا تھی مگر اب وہ اپنے ماں باپ کی پہچان بن چکا تھا۔اس کی زندگی کا ہر پہلو سب کے سامنے تھا۔عصر کے بعد اس سیکنڑوں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔خاک کا انسان آخر خاک میں مل گیا۔مگر شہید تو زندہ ہوتے ہیں اور وہ اب بھی زندہ تھا۔ماں باپ کے لئے،پاکستان کے لئے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک روشن چراغ بن گیا۔حوالدار رئیس احمد اس کی قبر پہ فاتحہ خوانی کر رہے تھے جب وہ فوجی افسر ان کے پاس آیا جو عماد کو اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔اس نے ان سے تعزیت کی اور ایک خط ان کے ہاتھ میں تھمایا’’یہ خط عماد نے جنگ پہ روانہ ہونے سے پہلے مجھے دیا تھا اور کہا تھا جس دن میری شہادت کی خبر گھر پہنچے یا جنگ کے دوران کہیں کھو جائوں تو بابا کو یہ خط دے دینا‘‘وہ بولا تو حوالدار رئیس احمد نے ان سے وہ خط لے لیا اور کھول کر پڑھنے لگے۔
’’میں جانتا ہوں بابا،یہ خط جب آپ کے پاس پہنچے گا تب آپ مجھے کھو چکے ہونگے۔میں ایک کھوٹا سکہ تھا جو کہیں چل نہیں سکتا تھا مگر آرمی نے مجھے قیمتی لعل بنا دیا۔آپ نے کہا تھا میں آپ کا سب سے نکما بیٹا ہوں۔مجھے معاف کرنا بابا میں نے اتنے سال آپ کو مشکل میں ڈالے رکھا۔آج چھ ستمبر ہے اور میں جنگ پہ جا رہا ہوں۔مجھے نہیں معلوم میں غازی بنتا ہوں یا شہید ہوتا ہوں مگر بابا آپ کا یہ بیٹا کبھی پیٹھ نہیں پھیرے گا نہ دشمن کے نرغے میں آ کر گھبرائے گا۔میری شہادت کے بعد آنسو مت بہائیے گا کیونکہ شہید تو زندہ ہوتا ہے۔میں ہمیشہ سے آپ کے ساتھ رہوں گا۔مجھے میرا وطن پیارا ہے۔میں اس کی سرحد کی حفاظت کے لئے جا رہا ہوں۔یہ خط برگیڈئیر منصور آپ تک پہنچا دیں گے۔بابا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔
آپ کا بیٹا
عماد‘‘
خط پڑھتے ہی حوالدار رئیس احمد زار و قطار رونے لگے۔’’مجھے تم پہ فخر ہے میرے نکمے بیٹے تم ہم میں آج بھی زندہ ہو‘‘انہوں نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور ہاتھ بلند کر کے اس سلامی پیش کی۔وہ ان کا بیٹا ضرور تھا مگر اس کا عہدہ اب بڑا تھا۔پاکستان کے لئے ہزاروں جانیں گنوانے کے بعد جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔وطن کے دفاع کے لئے کئی نام بے نام ہو گئے مگر انہوں نے دشمن کو ایک انچ بھی سرحد پار کرنے نہیں دی بلکہ ہمیشہ ایک سرپرائز دیتے ہوئے شکست ان کی جھولی میں ڈالی۔دشمن ہر محاز پہ شکست کھانے کے باوجود باز نہیں آ رہا مگر اسے ہمیشہ کی طرح شکست فاش ہو گی اور ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنے گی۔ان شاءاللہ
میاں اویس احمد چک پیرانہ کھاریاں گجرات